اس گروہ کا سود کو حلال جاننا کیسا ہے اور اس کے کچے دلائل شرعیت کے حکم کے سامنے کیا کچھ حیثیت رکھتے ہیں۔؟
دوسری قسم۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اصل کے ساتھ سود کے پیسے ضروری لے لینے چاہیں تاکہ اس سود کے پیسوں کوبغیر ثواب کی نیت کے کسی کار خیر میں لگایا جاسکے مثلا کسی غریب قرضدار یا بیمار وتنگدست کی مدد کردینا یا رفاہ عامہ کے کام جیسے گلی بنوانا اور سڑک مرمت کرنا یا کسی مسجد کے استنجا خانہ و نالیاں وٖغیرہ بنا دینا وغیرہ وغیرہ
ان لوگوں کے دلائل ٹھیک نہیں ہیں کیونکہ قرآن نے سود کو علی الاطلاق حرام قراردیاہے۔کسی کے مال کو ناحق لے کر رفاہ عامہ کا کام کرے کی شعیت نے اجازتگ نہیں دی ان کا یہکہنا بھی غلط ہے کہ سود ٖغرباء سے لینا حرام ہے ا۔اغنیاء سے جائز ہے کیونکہ یہ فرق شریعت نے قائم نہیں کیا۔ اس سے تو سود کو حلال کرنے کا چور دروازہ کھلتا ہے جس کو شرعیت بند کرتی ہے شرعیت کا منشاء یہ ہے کہ ضرورت مند کو بٖغیر سود کے رقم ملے اور اپنی ضرورت پوری کرنے کے بعد واپس کردے۔قرآن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن کے پاس فالتو مال ہے ااس سے دسروں کو فائدہ پہنچا کر اللہ سے اجرپانا چاہیئے۔اس کے مقابلے میں سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلسٹ نظام دونوں اپنی جگہ خود غرض ہیں لوگوں کو چند پیسے کا لالچ دے کر روپے جمع کرکے اپنا الو سیدھا کرتے ہیں اور آپس میں مفت تعاون کا سلسلہ بند کر دیتے ہیں۔