۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین اس بارہ میں کہ میں ایک سرکاری ملازم ہوں تنخواہ 200 روپیہ ماہوار ہے ہر ماہ تنخواہ سے 10 روپے ماہانہ بغیر میری رضا مندی سے گورنمنٹ کی طرف سے کاٹ لئے جاتے ہیں۔کیونکہ حکومت نےComfulsary g.p. fund یعنی ضروی ہر حالت میں کاٹنے کا حکم دےرکھا ہے خواہ ملازم کی مرضی ہو یا نہ ہو کاٹی ہوئی رمقمکے اوپر حکومت کی طرف سے 6 روپے سالانہ سود دیا جاتا ہے تاہم یہ گنجائز بھی ہے کہ اگر کوئی سود نہ لینا چاہےتو نہلے لیکن اگر ملازم سود نہ بھی لے تو بھی ر قم اس کو ریٹائر منٹ پر ہی مل سکتی ہے۔اس وقت تک حکومت اس کی رقم کو اپنے کاروبار میں استعمال کرتی رہے گی۔اور ریٹائر منٹ کے بعد اصلی رقم جتنی اس کی جمع ہے وہی ملے گی اس وقت بندہ کا تقریبا 1600 روپیہ حکومت نے کاٹ لیا ہے جس پر تقریباً 100 روپے سالانہ سود بنتا ہے میرے لئے سود لینے سے انکار کردینا بہترہے۔یا سود وصول کر کے کسی محتاج کو دینا بہتر ہے یا میرے اپنے لئے اس کا استعمال جائز ہے اس وقت میں نے سود لینا چھوڑ رکھا ہے لیکن اگر حکومت سے وصول کر کے کسی محتاج کو دینا بہتر ہے تو بندہ حکومت سے وصول کر کے کسی محتاج کو دے دے تاکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوجائے جو بہتر صورت ہے برائے مہربانی جواب دے کر مشکور فرمایئں عین نوازش ہوگی۔(نوٹ) حکومت خاص ضرورت کے وقت صرف 3 ماہ کی تنخواہ کے برابر ۔g.p.f میں سے رقم دیتی ہے جس کی قسطیں مقرر کی جاتی ہیں اور بمہ سود ان قسطوں میں کاٹ لیا جاتا ہے اور ماہوار قسط بھی ساتھ جاری رہتی ہے۔(ڈاکٹر مختار احمد بھٹہ راجہ جنگ ضلع لاہور)
جب یہ رقم جو کٹوتی رسالانہ زائد ملائی جاتی ہئے سود ہے تو ایک مسلمان کےلئے اس اعتبار سے اس کا عدم وجود برابر ہے کہ اس زائد رقم کا اصل رقم سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں وہ اگر وصول کی جائے تو کس حیثیت سے وصول کی جائے اور یا سمجھ کر وصول کی جائے جہان تک ربوا اور سود کا تعلق ہے وہ قطعی حرام ہے۔اس کا استعمال بھی جائز نہیں چہ جائیکہ اسے کسی محتاج کو دے کر ثواب کی امید رکھی جائے صدقہ تو حلال اور پاکیزہ مال سے دینا چاہیے حدیث شریف میں وارد ہے۔لا يقبل الله الا الطيب (متفق علیہ عن ابی ہریرہ (مشکواۃ باب فضل الصدقۃ)
یعنی اللہ تعالیٰ پاکیزہ مال سے صدقہ قبول فرماتا ہے۔ہذا ما عندی واللہ اعلم
(اخبار الاعتصام لاہور جلد 21 شمارہ 37۔38)