سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(173) بینک کاسود

  • 3288
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1645

سوال

(173) بینک کاسود
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(جناب مولنا عزیز زبیدی صاحب واربرٹن (شیخو پورہ)

انجمن شبان اہل حدیث گوجرانوالہ کے ناظم قاضی عبد القدیرصاحب لیکھتے ہیں کہ۔

ایک شخص نے مولنا مودودی صاحب سے پوچھا کہ اگر کوئی شخص غلطی سے کسی ایسے اکائونٹ میں روپیہ جمع کر بیٹھے جس میں سود ملتا  ہے تو سود کی  رقم ملنے پر وہ کیا کرے۔؟مولنا نے فرمایا وہ  رقم غریبوں میں تقسیم کر دے۔انہی صاحب نے استفسار کیا کہ کیا  اس طتح اسے خیرات کا ثواب ملے گا؟ مولنانے کہا کہ خیرات کا ثواب ملے یا نہ ملے گناہ سے بچنے کا ثواب مل جائے گا۔(ہفت روزہ آیئن 24 اکتوبر ص7)

کیا مولنا کا یہ جواب صحیح ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

گوجرانوالہ میں مستند و اعظ اور نامور علماء کرام  موجود ہیں آسانی سے ان کی طرف رجوع کیاجاسکتا تھا کیونکہ اس سلسلے میں وہ سند کی ھیثیت رکھتے ہیں اور آپ کے قریب بھی رہتے  ہیں  میں تو آپ کی طرح ان کا ایک طالب علم ہوں۔دنیا کے سیلاب بلا میں سے ایک عظیم بلا اور ابتلاء نظام بینک کاری بھی ہے اس سے نکلنے کےلئے جتنا کوئی شخص پھڑ پھڑاتا ہے اتنا ہی الجھتا چلاجاتا ہے اگر پیسہ گھر میں رکھتا ہے تو اس کے ضیاع کا خطرہ ہے بینک میں رکھتا ہے تو گناہ کا اندیشہ ہے۔

دل کو روئوں یا جگر کو میں            میری دونوں سے آشنائی ہے۔

بہر حال اس صورت کے پیش نظر علماء نے جب اس پر غور کیا تو وہ مختلف نتائج پر پہنچے بعض نے فرمایاکہ بینک کا سود وہ سود نہیں جو اسلام میں ممنوع ہے راقم الحروف کے شیخ الشیخ ڈپٹی نزیر احمد دیلہوی کا یہی نظریہ تھا مفتی جمعیۃ العلماء دہلی دیوبندی کا بھی یہی فتویٰ ہے بعض نے کہا کہ اس کی صورت یہ ہے اگر وہ از خود پیش کرے تو لے لیاجائے۔اگر آپ نے ہی طے کیا ے تو یہ سود ہے اس لئے ناجائز ہے ۔

حضرت مولانا عبد الواحد بن مولانا عبد اللہ الغزنوی کا یہی نظریہ تھا۔بعض بزرگوں نے تصریح کی ہے کہ بینک وغیرہ کا سود لے تو لیا جائے مگر خود خرچ نہ کیا جائے نہ تقرب کے کاموں کےلئے دیاجائے بلکہ لے کر کسی غریب اور نادار کو دے دیاجائے مگر ثواب کی امید نہ رکھیجائے علامہ قاضی اطہرمبارک پوری کا یہی نظریہ تھا ایک قول وہ ہے جو مولانا مودودی نے پیش کیا ہے بعض علماء کاکہنا ہے کہ سودی رقم سود خورون کےلئے نہ رہنے دی جائے بلکہ ان سے لے کر مضطر لوگوں پر خرچ کی راقم الھروف کے نزدیک دوسے اقوال کی بنسبت موکر الزکر نظریہ کچھ گوارا ہے کیونکہ مضطر لوگوں کے لئے ہر مراد جائز ہے۔مگر بقدر کفایت یہ بات تو اس صورت میں ہے کہ  جب کوئی شخص اس میں روپیہ جمع کرابیٹھتا ہے اس نظریہ کوگارا اس لئے کہا ہے کہ اس کی سنکگینی پہلے نظریات کی بہ نسبت کم رہ جاتی ہے جہاں تک جواز کی بات ہے  اسکے بارے یں پہلے راقم الحروف کانظریہ پہلے یہ تھا کہ سود خوروں سے بہر حال یہ چھری  چھین لینی چاہیے تا کہ اس کے ساتھ سودی کاروبار کا وہ مزید شکار نہ کرسکیں لیکن مزید غور کرنے پر محسوس ہوا کہ یہ پہلو بھی محل نظر ہے۔ کیونکہ اس کی سنگینی کا احساس دلانے کے بعد اب ہمم پر اس کی زمہ داری نہیں رہی کہ اب اگلا کیاکرے گا۔اگر ہے تو صرف ان کی کہ آپ اس میں اپنا سرمایہ ہی جمع نہ کراتے جوج آپ سے نہ ہوسکا اس لئے اب وہ جانیں اور ان کا کام دوسرا اس لئے کہ وہ ایک نجس مردار اور گندگی ہے سود خوروں کے گھر کو صاف رکھنے کیلئے اپنے گھر کو اس سے ملوث کرناکوئی دانشمندانہ بات نہیں ہے قرآن وحدیث میں حرمت سود کے بارے میں استثناء کا زکر نہیں کیا گیا اسلئے اس سلسلے میں خود استثنائی صورتیں پیدا کر لینا تشریح ہے جس کے ہم مجاز نہیں ہیں۔بینک کے بعض شعبے ایسے ہوتے ہیں جس میں کہے بغیر سود نہیں لگتا  لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ آپ کے جمع کردہ سرمایہ سے وہ سودی کاوبار بھی نہیںکرتے بلکہ کرتے ہیں آصرف اتنی بات ہوتی ہے جکہ اس میں سے آپ کو جو حصہ ملنا تھا وہ خود رکھ لیتے ہیں آپ کو نہیں دیتے اس لئے جو لوگ بینک سے سود نہ لے کر اس خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ وہ بری الزمہ ہوگئے ہیں فریب نفس سے زیادہ نہیں ہوتا کیونکہ اس میں اپنا سرمایہ جمع کرا کے سودی کاروبار کرنے میں آپ نے  بینک کے ساتھ پورا پورا تعاون کیا ہے اور

َا تَعَاوَنُوا۟ عَلَى ٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَ‌ٰنِ کی خلاف ورزی کر کے سودی کاروبار میں شرکت کرنے کا ارتکاب کیا ہے۔صحیح اور بیادی صورت یہ ہے کہ ایسے کاروبار ی اداروں میں اپنا سرمایہ جمع ہی نہ کرایاجائے اگر اجتماعی طور پر   ان بینکوں کا بائیکاٹ کیا جائے تو وہ شراکت اور مضاربت جیسے شرعی اصولوں کےمطابق اپنا نظام بینکاری بدلنے پر مجبور ہو جائیں ۔باقی رہا یہ اندیشہ کہ بینک کے بغیر پیسہ کاتحفظ مشکل ہوتا ہے سویہ بیامری صرف نظام بیک کاری میں جاری و ساری نہیں  زندگی کے ہر شعبہ میں اپنا کام کر رکہی ہے کیونکہ اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو نہیں جانتے کے اسلام کیا ہے۔ اور اس سلسلہ میں ان کی اپنی زمہ داری کیا ہے اس لئے آپ اس بانہ سے اور کیا یاجائز  کریں گے؟ یقین کییجئے ان میں سے  کچھ بھی ناجائز نہیں صرف دھاندلی ہے اور اس وقت تک دنیا کرتی جائے گی جب تک کوئی عمر نہیں پیدا ہوجاتا اسلامی نظام برحق کے مافی جو جو امور اور دھاندلیاں ہم نے سینے سے لگا لی ہیں وہ خود ساختہ معذرتوں کے سہارے لگا رکھی ہیں ورنہ حقیقت میں وہ شرعی ملازمتیں نہیں ہیں عذر لنگ کے ضن میں آتی ہیں جسے خوئے بدر ابہانہ بسیار سے تعبیر کر سکتے ہیں۔

عام معذرتیں اور شرعی معذرت

معذرت ایک ایسی مکروہکیفیت کانام رہ گیا ہے جس کا اسلام میں قطعا کوئی مذکور نہیں ہے معذرت وقت اور حالات کیایسی کوکھ سے جنم لے رہی ہے جسکے بدلنے کے لئے کوشش نہیں کی جاتی گویا کہ ہم نے ایسی معذرتوں سے سازگاری پیدا کرلی ہے جسکے بعد معذرت معذرت نہیں رہتی معصیت اور مجرمانہ غفلت بن جاتی ہے اس لیے ایسی معذرتوں کے سہارے جو بھی خلا شرع کام کیاجائے اسے شرعی معذرت کے  نام پر حلال نہیں  کیا جاسکتا اس لئے پوری قوم نے بیک کاری کے اسی نظام بد کو بدلنے کیلئے منظم کوشش نہ کرے اپنی معذرتوں کو کھٹائی میں ڈال دیاہے کیونک معذرتیں ناساز گار حالات اور وقت کاحاصل ہوتی ہیں جو لوگ اور قومیں ناساز گار فضائوں کوبدلنے کیلئے اپنی ہاتھ پائوں بھی مارتی رہتی ہیں تا تبدلیل حالات اسلام میں ایسی اقوام اور افراد کی معذرتوں کو قبول کیا جاتا ہے جہاں ایسی بات نہیں ہوتی اور نہ اسن ناسازفگار فضائوں کوبدلنے کی کوئی منظم سعی اور کوشش کی جاتی ہے۔وہان اسلام میں ان معذرتوں سے استفادہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی کیونکہ اب اسے معذرت سزی سے تبدیہ کیاجائے گا۔جس کے معنی ہوتئ ہیں کہ ان سے ساز گاری اور ہم آہنگی پیدا کر لی گئی ہے جو بجائے خود السان دشمنی ہے ہاں جو افاد دیانتداری کے داتھ اور پوری جدوجہد کوشش اور  محنت سے اس غلط نظام کو بلدنے کی کوشش میں بھی  لگے ہوئے ہیں وہ اگر وقت کئی کی حد تک اپنا سرمیاہ اس میں جمع کراتے ہیں تو ممکن ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ معذرتیں تصور کئے جاییں اس صورت میں بدرجہ آکر یہی ہوسکتا ہے کہ واقعۃ اگر کوئی مضطر سامنے آگیا ہے تو بینک سے اپنا سود لے کر اس  کو سہارا مہیا کرنا کرنا چاہے تو اس کیلئےگنجائش نکل سکتی ہے۔ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ (پ2بقرہ ع21)

ورنہ حرام خوروں کیلئے یہ حرام چھوڑ دیاجائے کیونکہ اب ہمارے بس میں اس سے زیادہ نہیں ہے۔ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَذَرُوا۟ مَا بَقِىَ مِنَ ٱلرِّبَو‌ٰٓا۟ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٧٨﴾ (بقرہ ع38)

اس چھوڑنے میں استثناء نہیں ہے اس لئے ان سے نہ وصل کرنا ہی ہماری زمہ داری ہے اور بس اور جو لگو اوامی جذبہ اور فیضہ کے احساس کے تحت ان کو بدلنے کےلئے مناسب تک ودود کئے بغیر اپنے آپ کو معزور تصور کر رہے ہیں۔یقین کیجئے وہ عند اللہ معزور نہیں ہوں گے بلکہ مجرمانہ نظام کے داعیوں کے ساتھ یہ بے غیرت اور کاہل لوگ بھی مجرم قرار پایئں گے کیونکہ اللہ کے ہاں ایسے لوگ بہانے باز اور ظالم قرار  پاتے ہیں زیل کی آیات میں انہی جعلی معذوروں کا زکر ہے۔ إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّـهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَـٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ

(پ5 سورۃ النساء  ع 14)

چونکہ وہ  لوگ کفار کے نرغے کو معذرت تصور کر کے بیٹھ گئے تھے اور اس کے لئے آخری چارہ کارکی حد تک نکلنے کےلئے انہوں نے کوئی کوشش نہیں کی تھی اس لئے اللہ نے فرمایا تمہاری یہ معذرت مسموع نہیں ہے۔یہی کیفیت آجکل ہماری ہے۔ کہ اللہ کی عطا کردہ رخصتوں کا دامن تھ مے میں تو ہم کوئی سستی نہیں کرتے لیکن اس سلسلے کی اپنی زمہ  داریوں اور  تقاضوں سے واسطہ بھی نہیں رکھتے حالانکہ یہ ناجائز ہے۔الخراج بالضمان

اس سلسلے کی چند آیات اور احادیث ملاحظہ فرمایئں۔

اگر کسی کو مال دیا ہے بطور قرض یا بطور امانت تو آپ صرف راس لامال لینے کا حق رکھتے ہیں۔ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَ‌ٰلِكُمْ (بقرہ ع38)

حدیث وقال النبي صلي الله عليه وسلم صلعم وما كانلهم في الناسمن دين فليس عليهم الا راسه(کتاب الاموال لابن السالام صفحہ 192)

زیادتی آپ سے بھی نہیں ہونی چاہیے دوسروں سے بھی نہیں  لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ﴿٢٧٩﴾اس کی شکل یہ ہے کہ سود چھوڑ دیا جائے ۔ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَذَرُوا۟ مَا بَقِىَ مِنَ ٱلرِّبَو‌ٰٓا۟ سود قال عن العوض مگر صرف وقت اور مہلت کے بلدے کا نام ہے فرمایا اس کے بجائے اگر تنگی آگی ہے تو اسے مزی مہلت دی جائے نہ یہ کہ مہلت کے عوض اس پر سوار ہونے کی کوشش کی جائے۔ وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ صرف  مہلت ہی نہیں اگر صدقہ کا اہل ہے۔تو صدقہ کر دیاجائے تو کیا ہی کہنے۔ وَأَن تَصَدَّقُوا۟ خَيْرٌ لَّكُمْ سود کے مال میں برکت نہیں ہوتی  انجام تباہی نکلتا ہے۔اصل برکت خدا کی رضاجوئی میں ہے۔ َمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّـهِ ۖ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ ﴿٣٩﴾

)سورۃ الروم ع 4)

 

خلاصہ یہ ہے کہ  بینک کا سود حرام ہے اس لئے اس  میں سرمایہ جمع ہی نہ کرایا جائے بلکہ اس کو بدلنے کے لہے منظم کوشش کی جائے اب اگر ضیاع کے اندیشے سے اس میں جمع کرانا پڑ گیا ہے۔تو ان پر یہ واضع کرسو کہ سود حرام ہے میں نہیں لووں گا الا یہ کہ کوئی مضطر بندہ سامنے آجائے اور اس کو بچانے کیلئے دینا پڑے تاہم اسے  ثواب  تصور نہ کیاجائے۔ تاکہ کسی پہلو میں بھی اس سے زہنی سازگاریاور مفاہمت پیدا ہونے کا کوئی امکان نہ رہے۔ہذا ما عندی واللہ اعلم

(الاسلام لاہور جلد2 شمارہ 43)

توضیح المفید

بر فتاوی علماء حدیث ہمارے اکابرین کی کوششوں سے اور حکومت پاکستان کے صدر مملکت صدر ضیاء الحق کی جدو جہد سے اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی سودی کاروبار کی لعنت کو مضاربت اور شراکت کی صورت میں تبد یل کیا لیکن فافہم لوگ اس کو بھی سود سمجھتے ہیں ایسے لوگ اصل میں سود کی تعریف نہیں سمجھے اللہ توفیق عطا فرمادیں۔(سعیدی خانیوال)

استفسارات

بینک کاسود۔

چنیوٹ سے ایک دوست ارقام فرماتے ہیں۔

مولناٰ السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ

اخبار اہل حدیث مورخہ 1954 میں فتاوی کے تحت سوال نمبر 280 میں کچھ شک ہے۔وہ دور کیجئے سوال  ہے کہ بینک کی نوکری جائز ہے یانہیں ؟ آپ نے جواب دیاہے کہ بینک  کی نوکری   میں اختلاف ہے۔مگر ٹھیک یہ ہے کہ وہ ناجائز ہے۔کیونکہ بینک کی نوکری کا  سارا کاروبار ہی سود پر مبنی ہوتا ہے۔ اور حرام ہے وغیرہ۔اب عرض ہے کہ

1۔اگر بینک کا کاروبار سارا سودی نہ ہوتا تو پھر کیا اس کی نوکری جائز ہوتی؟

2۔حرام ہر حالت میں حرام ہے چاہے وہ تھوڑا ہو یا بہت جیسے سود کا گوشت اگر سیر بھر حرام ہے تو ایک لقمہ بھی حرما ہے شراب اگر بوتل بھی حرام ہے تو ایک گھونٹ بھی حرام ہے۔

3۔ڈاک خانہ کی ملازمت میں سود دیا جاتا ہے لیا نہیں جاتا اور آپ جانتے ہیں کہ سود دینے ۔لینے ولالا۔لکھنے والا ۔گواہ سب ایک ہی جرم کے  مرتکب ہوتے ہیں پھر کیا ڈاک خانہ کی نوکری جائز ہوگی؟

4۔اگر بینک کی نوکری حرام ہے تو کیا بینک کے کسی ملازم کی ز کواۃ خیرات ۔صدقہ  قبول ہوگا یا نہیں؟

5۔ہندو تمام سود کور ہوتے ہیں کیا ان کی نوکری بھی جائز ہوگی یا نہیں؟ اگر وہ اسٹیشن پر اتریں اور مسلمان قلی ان کا سامان اٹھا کر اُجرت لیں تو وہ بھی جائز ہوگی یا نہیں؟

جواب۔آپ نے ناحق بال کی کھال اتارنے کی کوشش کی ہے۔جواب میں کیہ دیا گیا ہے  اس میں بعض نے اختلاف کیا ہے اور اختلاف والوں ہی سے ایک آپ بھی ہیں پھر کیا آپ چاہتے ہیں کہ سب آپ سے متفق ہوجایئں۔اور کوئی بھی مخالفت نہ رہے یہ کیوں کر  ہوسکتا ہے۔؟جن کو اختالف ہے اختلاف ہی رہے گا آپ کے دلائل جاننے کے باوجود وہ اس سے اختلاف رکھتے ہیں اور صحیح طور پر نیک  نیتی سے اختلاف رکھتے ہیں سنئے اگرکوئی شخص یا ادارہ تجارتی کاروبار کرتا ہو اور سود بھی لیتا ہو تو اس کی ملازمت

جائز ہوگی کیونکہ اس کے مکلف نہیں ہیں کہ اس کی تحقیق کرتے پھریں۔کہ آپ کی تنخواہ کس شعبے سے آئی ہے۔جس کی کمائی کا عنصر غالب حلال ہو۔اُس کی اجرت اور مزدوری جائز اور حلال ہوگی۔یہ ایک اصولی چیز ہے جس میں آپ کے تمام جواب آجاتے ہیں۔باقی رہا صدقہ خیرات کی قبولیت کاسوال سو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اصول یہی ہے کہ جو مال مطلق حرام ہو وہ قبول نہیں ہوتا۔ باقی رہا لوگوں سے لین دین وہ جائز ہوگا کیونکہ نوعیت کے بدلنے سے حکم بھی بدل جاتا ہے ۔صدقی کا مال سادات کرام کےلئے ممنوع ہےی۔کسی کو صدقہ ملا تو اس نے حضور کی خدمت میں پیش کر دیا  آپ نے قبول فرمایا تو کسی نے کہہ دیا حضور یہ صدقہ تھا آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اس کےلئے صدقہ تھا مگر جب اس کی تملیک میں آگیا تو اس اک حکم بدل گیا اب وہ ہیں بطور ہدیہ دے رہا ہے جو جائز ہے پس اسی حدیث سے اپنے مسئلہ کو بھی حل کر لیجئےے(نائب مدیر)(اہل حدیث سوہدرہ)

سوال۔بیان کیا جاتا ہے جکہ اسلام میں سودی لین دین بدترین جرم ہے۔قرآن نے اس جرم کیلئے ہمیشہ عذاب  کی وعید سنائی ہے۔اور حدیث شریف میں اس کے کمتر سے کمتر درجے کے گناہ کو ماں سے بدکاری کے برابر قرار دیا گیا ہے کیا یہ صحیح ہے؟

موجودہ  دور میں سود کے بارہ میں کئی قسم کی مشکلات پیچیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں شاید اس لئے عام مسلمان غلط فہمیوں کا شکار ہیں حتی کہ دیندار قسم کے لوگ بھی اب   بے دھڑک سودی لین دین کر رہے ہیں۔وضاحت کیلئے تفصیلی طور پر سود کی عام مروجہ صورتیں بیان کی گئی ہیں۔برائے کرم قرآن و حدیث کی  روشنی میں حقیقت حال سے مطلع فرمادیں تاکہ اس جرم عظیم سے بچا جاسکے۔؟

جواب۔ہاں سودکے متعلق قرآن نے بڑی وعید و دھمکی  سنائی ہے حدیث میں سود کے ستر د رجوں میں سے اونیٰ کو ماں کے ساتھ زنا کرنے کے برابر  قرار دیاہے یہ حدیث سنن ابن ماجہ میں موجود ہے مسلمان جو کچھ کر رہے ہیں۔وہ غیر مسلم کی نقالی کر رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان نصرت الہیٰ اور عون خدا سے  محروم ہوگیے ہیں۔

سوال۔ہر بینک ہر جمع شدہ رقم کو سودی قرضوں کے لین دین پر لگاتا ہے اس لئے کیا بینکوں میں روپیہ جمع کرانا جائز ہے۔دیگر بینک میں روپیہ جمع کرنے کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں۔

پہلی صورت ۔بینک میں روپیہ جمع  کرانا اور اس کے ساتھ سود بھی وصول کرنا۔

دوسری صورت۔یہ ہوسکتی ہے کہ بینک والوں کو لکھ کر دے دیاجائے کہ ہمیں سود نہیں چاہیے۔اس لئے اصل  کے ساتھ سود کا اندراج نہیں ہوگا۔ اگرچہہ اس رقم کو بھی بینک بدستور سودی قرضوں میں لگائے گا۔

تیسری صورت۔یہ ہوسکتی ہے کہ اپنے روپے کو بینک کی تجوری میں رکھ دیا جائے یہ تجوریاں بینکوں میں دستیاب ہیں ان میں لوگ زیورات وغیرہ رکھتے ہیں۔اپنی اپنی تجوری کا کرایہ بینک کو ادا کرنا پڑتا ہے۔

جواب۔قرآن و احادیث کی رو سے یہ پہلی صورت جائز نہیں ہے کیونکہ اسلام نے غریبوں محتاجوں اور ضرورت مند لوگوں کو بلا سود قرض ملنےے کی صورت میں ایک غریب یا ایک چھوٹا کروباری آدمی اللی کے فضؒ سے باآسانی ترقی کرسکتا ہے اس کے مقابلے میں سودا ادا کرنے ک صورت میں مثلا ایک آدمی دس ہزار روپے کا مقروض ماہانہ سود بھی ادا کرے وہ دکان کاکرایہ مکان کا کرایہ بھی برداشت کرے نیز اپنے بال بچے بھی پالے اس طرح اس کا دیوالیہ نکل جاتا ہے ہمارے تجربہ میں ایسے کئی افار موکود ہیں کہ سودی قرض پر کاروبار کر کے سود کےتلے دب کر اپنی  ملکیتی مکان سے بھی محروم ہوگئے ۔عوام الناس تو  اپنی جگہ ہے دنیا کی چھوٹی چھوٹی حکومتیں بڑی بڑی خونخوار سرمایہ دار حکومتوں کے سود تلے دب کر دم توڑ رہی ہیں  چونکہ اسلام کی انگلی فطرت انسانی کی نبض پر ہے۔اسلام کے نازل کرنے والا عالم الغیب والشہادۃ کو علم ہے کہ یہ سود انسان کے لئے اور اس ک ی ترقی کو تباہ کرنے میں ناسور کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے  اسے حرام قرآ دیا ہے سوال میں زکر کردہ دوسری اور تیسری صورت جائز ہے مگر شرط کے ساتھ

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 14 ص 166-174

محدث فتویٰ

تبصرے