سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(85) صاع کی مقدار ۔

  • 3287
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3878

سوال

(85) صاع کی مقدار ۔

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

صاع کی مقدار کیا ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صاع شرعی نزدیک ائمہ ثلاثہ وابو یوسف وجمہور اہل علم پنج رطل وثلث است ونزدیک امام ابو حنیفہ وامام محمد رحمہما اللّٰہ تعالیٰ ثمائیہ ارطال بالحجازی وہو القول القدیم لابی یوسف ثم رجع الیٰ قول الشافعی در عمدہ حاشیہ شرح وقایہ نوشتہ در جع ابو یوسف الیٰ قول الشافعی حین دخل المدینۃ ووقف علی ذالک بعد ما کان یقول بقول شیخہٖ ومد شرعی کہ ربع صاع است نزد وائمہ ثلاثہ و ابو یوسف جمہور اہل علم یک رطل وثلث رطل است ونزد امام ابو حنیفہ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالیٰ دورطل است۔ حافظ ابن حجر در فتح الباری نوشتہ والمداناء یسع رطلاً وثلثاً بالبغدادی قالہٗ جمہور اہل علم وخالف بعض الحنفیۃ فقالوا المد رطلان مد از مد کفین است یعن آنچہ در کفین از غلاد داشتہ شود آن مداست وہمیں است رطل وثلث رطل۔
’’شرح صاع ائمہ ثلاثہ وابو یوسف اور جمہور اہل علم کے نزدیک ۳/۱۔۵ رطل کا ہے، امام ابو حنیفہ اور امام محمد کے نزدیک آٹھ حجازی رطلوں کا ہے، پہلے امام ابو یوسف کا بھی یہی قول تھا، پھر اس سے شافعی کے قول کی طرف رجوع کر لیا، عمدہ حاشیہ شرح وقایہ میں لکھا ہے کہ امام ابو یوسف جس وقت مدینہ میں تشریف لائے، اور صاع شرعی کی تحقیق کی تو اپنے شیخ کے قول سے امام شافعی کے قول کی طرف رجوع کیا، مد شرعی جو کہ صاع کا ربع ہے، ائمہ ثلاثہ اور ابو یوسف و جمہور اہل علم کے نزدیک دور طل کا ہے، حافظ ابن حجر فتح الباری میں تحریر فرماتے ہیں، کہ مد وہ برتن ہے کہ اس میں ۴/۱۔۱ رطل بغدادی سما جائے، جمہور اہل علم کا بھی یہی قول ہے، لیکن بعض حنفی اس کے خلاف ہیں، وہ کہتے ہیں کہ مد دو رطل کا ہے، (اصل میں) مد مد کفین سے ہے، یعنی جس قدر غلہ ہاتھوں میں آ جائے، وہ مد ہے، اور وہ ۳/۱۔۱ رطل ہے۔‘‘
در مرقاۃ الصعود نوشتہ قال فی المشارق سمی مدا لانہٗ یملاء کفی الانسان اذا مد ہما طعاماً۔ پس صاع چہار بار ملاء کفین است بکفین درمیانہ وہمیں قدر است پنج رطل ومثلث رطل در قاموس نوشتہ الصاع اربعۃ امداد کل مد رطل وثلث قال الداؤد معیارہ الذی لا یختلف اربع مفتات بکفی الرجل الذی لیس بعظیم الکفین ولا صغیر ہمار از لیس کل مکانیوجد فیہ صاع النبی ﷺ انتہیٰ
’’مرقاۃ الصعود میں لکھا ہے، کہ مشارق میں ہے کہ مد کا نام اس واسطے مد رکھا گیا ہے کہ جس وقت انسان اپنے ہاتھوں کو پھیلا دے، تو غلہ مد ان دونوں ہاتھوں کو بھر دیتا ہے، پھر اس حساب سے مد کی مقدار معلوم ہو گئی کہ اگر ہاتھوں کو چار دفعہ بھرا جائے، تو جتنا غلہ ان میںآ جائے وہ مقدار صاع کی ہے۔‘‘
صاحب قاموس میگوید و حبربت ذلک فوجدتہٗ صحیحاً۔ وچہار خفات از گندم، تجربہ معلوم شدہ کہ دو سیر پختہ انگریزی و نصف پاؤ مے شود ہذا علیٰ مذہب الجمہور ونزدیک امام ابو حنیفہ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالیٰ کہ صاع ہشت رطل است بایں حساب صاع سہ سیر پختہ و یک نیم پائو انگریزی وزن ہشتاد روپیہ ڈبل است ووزن رطل بحساب مذکور دو آنہ کم سی و دو روپیہ شود درین مسئلہ قول راجح قول جنہور است لہٰذا ابو یوسف بعد از تحقیق صاع نبوی در مدینہ منورہ رجوع از قول شیخ خود بقول جمہور نمود
’’قاموس میں لکھا ہے کہ صاع چار مد کا ہوتا ہے، اور ہر مد ۳/۱۔۱ رطل کا اور داؤد نے کہا کہ معیار اس کا جس میں اختلاف نہیں ہے، وہ چار بک ایک ایسے آدمی کے ہیں، کہ جس کے ہاتھ نہ بڑے ہوں، اور نہ چھوٹے اس واسطے کہ صاع نبوی ہر جگہ میسر نہیں ہو سکتا انتہیٰ۔ اور صاحب قاموس کہتا ہے کہ میں نے اس کو آزمائا تو صحیح پایا (یعنی صاع نبوی کے موافق پایا) اور گیہوں کے چار بک تجربہ سے معلوم کیا گیا ہے، کہ ۲/۱۔۲ سیر انگریزی ہوتے ہیں، اور جمہور اہل علم کے مذہب کے موافق بھی یہی ہے۔امام ابو حنیفہ اور امام محمد کے نزدیک صاع آٹھ رطل کا ہے، اس حساب سے صاع ۲/۱۔۳ سیر انگریزی ہوئے سیر پختہ انگریزی سے مراد اسی روپے کا سیر ہے۔ حساب مذکور سے رطل کا وزن اکتیس روپے چودہ آنے ہوتا ہے، ان مسائل میں راجح قول جمہور ہی کا قول ہے، اسی واسطے امام ابو یوسف نے مدینہ منورہ میں آ کر جب صاع نبوی کی تحقیق کی تو اپنے شیخ (امام ابو حنیفہ) کے قول سے جمہور اہل علم کے قول کی طرف رجوع کیا۔‘‘ (مجموعہ فتاویٰ غزنویہ ص ۲۰۴)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 7 ص 196۔198

محدث فتویٰ

تبصرے