چہ فرمائید علمائے دین و شرع متین کہ بیع بالوفا عند الشارع جائز است یا نہ بینوا توجروا
ارباب فطانت و دیانت پر مخفی نہیں کہ رسم و رواج و تعامل بیع الوفا کا قرون ثلاثہ مشہور لہا بالخیر میں نہیں پایا گیا۔بعد مدت دراز قرون ثلاثہ کے چند علمائے متاخرین بخار او سمر قند وغیرہ نے صورتیں بیع الوفا کی اختراع کیں اور نکالی ہیں۔اور قواعد و ضوابط آئمہ اربعہ وغیرہ سے بیع الوفاء کا واضع ہوتا ہے۔اور جس چیز کی اصل شرع سے پائی نہ جاوے۔وہ چیز منہی عنہ اور غیر مشروع قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من عمل عملا ليس عليه امرنا فهوا رد كما اللبخاري وغيره من المحدثين هذاالحديث معدود وقاعدة من قواعده فان معناه من اخترث في الدين ما لا يشهد له اصل من اصوله فلا يلتفت اليه وقال النووي شارح مسلم هذاالحديث مما يعتني بحفظه واستعماله في ابمطال المنكرات واشاعة الا ستدلال به كذالك انتهي ما في فتح الباري شرح البخاري مختصرا
اور باوجود اس احداث و اختراع کے رائے فخر عین کی بھی اس میں مختلف ہے۔اب بیان اختلاف چند علمائے متاخرین مخترعین کا سنو کہ صدر شہیدتاج الاسلام و صدر شہید حسام الدین نے بیع الوفا کو بمنزلہ بیع المکرہ کے گردانا ہے۔حدیث
اور دوسری وجہ فساد بیع الوفا کی یہ کہ بیع مذکورہ بشرط فتح و استر داد اور واپسی مبعیہ کے منعقد ہوتی ہے۔حدیث
ترجمہ پھر جبکہ عاقدین نے بیع الوفا کے اندر ما قبل اس کے فسخ کو زکر کیا یعنی شرط کیا یا دونوں نے اس کو بیع غیر لازم گمان کیا تو بیع فاسد ہوگی۔حدیث
اور ظہیریہ میں ہے کہ اگر شرط مذکور ہوئی بعد عقد کے تو وہ شرط عقد کے ساتھ لاحق ہوگی۔ابو حنیفہ کے نزدیک اور صاحبب ظہیریہ نے یہ زکر نہیں کیا۔کے شرط مجلس عقد میں ہو یا بعد اس کے یہ درمختار میں مذکور ہے۔اور کہا صاحب طحاوی و محشی درمختار نے کہ جب شرط فسخ امام کے نزدیک ملحق عقد سے ہوئی بیع فاسد ہوگی۔اگرچہ بعد مجلس ہو انتیٰ کلامہ۔
تیسری وجہ فساد کی یہ کہ شرط خیار فسخ کا بیع لوفا میں زیادہ تین دن سے معمول رہا ہے۔اورزیادہ تین دن سے عام ہے۔کہ چاردن زیادہ کہ چار مہینے یا چار برس ہو مثلا حالنکہ شرط خیار فسخ کا بیع میں زیادہ تین دین سے نہیں ہے۔پس اگر زیادہ تین دن سے خیار فسخ کا ہوگا۔تو بیع فاسد ہوگی۔چنانچہ اس بات میں تمام متون و شروع فتاوی حنفیہ مظہر و شاہد ہیں۔اب واضع ہو کہ مجوزین بیع الوفا ء نے اس مسئلہ میں مسلک و مذہب اپنے امام کا چھوڑ کر غیر مسلک امام کا اختیار کیا قطع نظر حدیث مذکورہ بالا سے اور سید امام ابو شجاع و علی الستفدی نے اس بیع مذکور کو رہن قراردیا اور رہن ہونے پر دارومدار رکھا۔اور جب بیع الوفا بدلیل سابق رہن حقیقتا قرار پایا نزدیک امام حسین ما تریدی و سید ابو شجاع و قاضی علی سفدی کے اور کتاب وثیقہ بیع الوفاء میں شرط نفع لے لینے مشتری اور راہن کے مندرج اور مشروط خالی عن العوض بلا ریب ربوا میں داخل ہے۔اور عیاں راچہ بیاہ الخ (فتاوی نزیریہ جلد 2 ص 17۔18)
(فتاوی ثنائیہ۔جلد 2 ۔صفحہ 147۔148)