سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(119) سلامی کا روپیہ شرعا جائز ہے۔یا ۔ناجائز؟

  • 3229
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1042

سوال

(119) سلامی کا روپیہ شرعا جائز ہے۔یا ۔ناجائز؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج سلامی کا  رواج عام ہے۔مکان کا مالک اپنے کرایہ داروں سے ہزار دو ہزارف پہلے وصول کر لیتا ہے۔اور بعد میں ستر اسی روپے ماہوار پر کرایہ پر دیتا ہے۔جو روپیہ سلامی کے طور رپر پہلے وصول کر لیتاہے۔اس کو کرایہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔یہ سلامی کا روپیہ شرعا جائز ہے۔یا ۔ناجائز؟(عبد الحکیم قصوری جامع اہل حدیث رنگون)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس قسم کا سودا ناجائز ہے۔کیونکہ یہ رشوت کے حکم میں ہے۔(فتاوی ثنائیہ۔جلد 2 ص 451)

توضیح

رشوت کے معنی ہیں کسی شخص کو کچھ مال اس غرض سے دینا کہ وہ شخص  امر باطل اور ناحق پر اس کی اعانت کرے۔اور اس غرض سے جومال دیوے۔وہ راشی ہے اور حدیث میں ان  تینوں پر لعنت آئی ہے۔اور امر حق ک حاصل کرنے کیلئے یا ظلم ظالم کے دفع کرنے کیلئے مال دینا رشوت نہیں ہے۔مجمع البھار میں ہے۔حدیث والؤشوة بالكسر والظم وصلة الي الحاجة بالممانعة من الؤشا ء التوصل به الي المعاء ومن يعطي توصلا الي اخذ حق اددفع ظلم فغبر داخل فيه روي ان بن مسعود اخذ با رض الحبشة في شئ فا عطي دينارين حتي خلي سبيله وروي عن جماعة من ائمة التابعين قالوا لا باس ان يصائع عن نفسه وماله اذا خاف الظلم انتهي(فتاوی نزیریہ جلد 2 ص31)

ایضاً؛۔از حضرت مولنا عبد السلام دہلوی

امر حق کے حصول کے دفع کیلئے مال دینا رشوت سے خارج ہے۔(اہل حدیث دہلی یکم نومبر سن1951ء) (فتاوی ثنایئہ جلد 2 ص257)

1۔عرف عام میں آجکل اس کو پگڑی کہتے ہیں۔(سیعدی)


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 14 ص 108

محدث فتویٰ

تبصرے