سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(106) جو شخص کسی کی زمین ظلماً ایک بالشت دبائے گا۔..الخ

  • 3213
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1452

سوال

(106) جو شخص کسی کی زمین ظلماً ایک بالشت دبائے گا۔..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید کہتے ہے کہ جو شخص کسی کی زمین ظلماً ایک بالشت دبائے گا۔قیامت کے دن اس کے سر پر ساتوں زمینوں کا بوجھ رکھاجائے گا۔یہ مضمون حدیث شریف کا ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ حدیث شریف کا  مضمون ہے۔حدیث یہ ہے۔عن سعيد بن زيد قال رسو ل الله صلي الله عليه وسلم من اخذ شبرا من الارض ظلما فانه يطوقه يوم القيامة من سبع ارضين متفق عليه مشكواة (جلد نمبر 1 ص 354)

ترجمہ ۔وہی ہے جو سائل نے نقل کیا ہے۔

تعاقب۔آپ اپنے اخبار 23 رجب کے صفحے فتاوی پر ایک سوال کا جواب دیا ہے۔اور اس میوہ کی شراب بنتی ہے۔اس کو شراب ساز ٹھیکہ دار کے پاس فروخت کرنا جائز  ہے۔ او ر اس پر دلیل آپ نے صرف یہ دی ہے۔کہ جس حالت میں کوئی چیز بیچی جاتی ہے۔اسی حالت میں نشہ آور نہیں تو بیچی جا سکتی ہے۔اور اس پر فقہا کا قول بھی پیش کیا کہ شراب ساز کے پاس انگو ر بیچنا جائز ہے۔؟

ہمیں اس پر اعتراض ہے کیونکہ اس پر حدیث دال ہے۔کہ شراب ساز کے پاس انگور بالکل نہ بیچے جایئں۔

حدیث۔من حبس العنب ايام القطاف حتي يبعه ممن يتخذه خمرا فقد تقحم النار علي بصيرة(الطبرانی فی الا وسط باسنا دحن)

یعنی جوشخص انگوروں کو بند رکھتاہے۔اس نیت پر کے شراب ساز کے پاس بیچے تو اس نے جان بوجھ کر اپنے آپ کو جہنم میں گرایا۔(عطاء الرحمٰن طالب علم امرتسر)

جواب۔معترض نے نہ پوری حدیث پرنظر کی نہ اس کی شرع پر۔جلدی میں تعاقب لکھ مارا سنیے!حدیث میں حتٰی کا لفظ ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو بیچنے والا شراب ساز کی تلاش میں رہے اس کے حق میں یہ حدیث ہے۔نیز اس کو یقین ہو کہ وہ اس چیز سے ضرور شراب بنائے گا۔لیکن اگر یہ دونوں قیود نہ پائی جایئں۔تو یہ وعید بھی نہیں معترض نے اس حدیث کو بلوغ المرام میں پڑھا ہوگا۔اس لئے بلوغ المرام کے حواشی میں ہی اس کو دیکھنا چاہیے۔هوا يدل علي اعتبار المقصد الي بتخذه خمرا

حاشیہ مولانا سید احمد حسن دہلوی سبل السلام میں بھی  تقریباً یہی ہے۔اخباری سوال میں ایسا نہیں ہے بلکہ اس کے الفاظ یہ ہیں۔مہوہ شراب کے ٹھیکدار کی طرف سے ہوتی ہے۔یہ مہوہ شراب میں بھی خرچ ہوتا ہے۔اور غذا میں بھی اور جانور کے چارے میں بھی شراب کے ٹھیکدار سے فروخت کرنا جائز ہے کہ نہیں؟

پس اس کی صورت بعینہ گہیوں کی ہوئی جو بازار میں بکتی ہے۔جو عام انسانوں کی غذا ہے۔اور شراب بھی اس سے بنتی ہے۔کوئی شراب ساز گہیوں خریدے تو کیا اس کو گہیوں دینا منع ہے۔گہیوں غذا بھی ہے۔(فتاوی ثنائیہ جلد 2 صفحہ نمبر 440۔441)

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 14 ص 99

محدث فتویٰ

تبصرے