زید نے بکر سے اس کے حصہ کی زمین رہن اس شرط پر لی ہے۔کہ جب زر اصلی اکبر ادا کردے تو اپنی زمین پر قبضہ کرلے۔زید اس مرہون زمین میں کاشت کرتا ہے۔اور مالگزاری سرکاری جو بکر ادا کرتا تھا۔وہ اب زید اپنے پاس سے ادا کرتا ہے۔اور جو زمین آسامیو ں کے قبضے میں ہے۔ان سے مالگزاری وصول کر کے۔سرکاری لگان ادا کرکے بقیہ اپنے تحت وتصرف میں لاتا ہے۔کوئی مقررہ منافع نہیں ہے۔زید کوک بھی فائدہ ہوتاہے کبھی نقصان ۔لہذا سوال یہ ہے کہ اس طرح زمین رہن لینا جائز ہے یا نہیں؟
جواب۔صورت مرقومہ سود ہے۔
(فتاوی ثنائیہ جلد 2 صفحہ نمبر 440)