سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(85) سود سے توبہ کرنے کے بعد سودی مال سے زکواۃ نکالنے کا حکم؟

  • 3189
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1502

سوال

(85) سود سے توبہ کرنے کے بعد سودی مال سے زکواۃ نکالنے کا حکم؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید دس سال سے سودی لین دین کر رہا ہے۔آج اللہ سے ڈر کر توبہ کرتا ہے۔اور اپنے کل مال زکواۃ نکالتا ہے۔لوگوں کے زمہ باقی ماندہ سود کو چھوڑ دیتا ہے۔لیکن جو مال اس نے سود ے کر جمع کیا ہے۔اس میں اصل بھی ہے۔آیا یہ مال  پاک ہے یا نا پاک؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سود کا لینا دینا ہر صورت میں حرام ہے۔توبہ کرنے سے معاف ہو جائے گا۔قبل از توبہ حلال و مخلوط از سود مال توبہ کے بعد پاک ہو جائے گا۔توبہ کرنے سے شرک و کفر تک معاف ہو جاتے ہیں۔انہیں گناہ کبائر میں سے سود بھی ہے۔وہ بھی معاف ہو جائے گا۔آپ ﷺ نے فرمایا!التا ئب من الذنب كمن لا ذ نب له

گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے۔گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔

مسئلہ مذکور میں قرآن اپنے ان الفاظ میں ناطق ہے۔قرآن

ترجمہ۔جو لوگ سود کھاتے ہیں نہیں اُٹھتے ہیں مگر جیسے وہ شخص جس کو شیطان نے اچک  لیا ہو۔(یعنی مجنون) یہ اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے خریدوفروخت اور سود کو ایک کہا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے خریدو فروخت کو حلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام تو جواللہ کی طرف سے نصیحت آنے کے بعد باز  رہے تو وہ مال اسی کا ہے۔جو اس نے پہلے لیا اس کا امر اللہ کے سپر د ہے۔لیکن جو باز نہ آئے وہی اہل نار میں سے ہے۔جو اس میں ہمیشہ سے  رہیں گے۔

اللہ کے قول   فله ما سلف سے معلوم ہوتا ہے۔کہ جو مال توبہ سے پہلے اور حرمت سے  پہلے لے چکا ہے۔اس کا رکھنا اس کےلئے جائز ہے۔اس کے واپس کرنے کا صراحتہً حکم نہیں ۔چنانچہ حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں  اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔قرآن

اي من بلغه نهي الله عن الربوا فانتهي ما ل وصول الشرع اليه فله ما سلف من المعلمة قوله عفا الله عما سلف وكما قال النبي صلي الله عليه وسلم يوم فتح مكه وكل ربا في الجاهلية موضوع تحت قدمي ها تين واول ربا اضع ربا العباس ولم يا مر هم برد الزيادات الما خوذة في الجا هلية بل عما سلف كما قال الله فله ما سلف وامره الي الله الخ

اور تفسیر مواہب الرحمٰن میں آیت کریمہ کا ترجمہ اس طرح لکھا ہے۔یعنی جس شخص کے پاس آگئی نصیحت اس کے رب عزوجل کی طرف سے پس وہ باز رہا۔یعنی بیاج کھانے سے تو جو گزر چکا ہے۔وہ اس کے لئے ہے۔

فائدہ۔یعنی وہ بیاج اس سے واپس نہیں کیا جائے گا۔جو حکم الہٰی کے پہنچنے سے پہلے وہ جمع کر چکا ہے۔الخ اور اگر توبہ کے وقت اصل  رقم اور سود کے مال سے لوگوں کے زمے باقی ہے۔تو توبہ کے بعد اپنی اصل رقم کو لے لے۔اور سود کو چھوڑ دے۔قرآن مجید میں اللہ نے فرمایا ہے۔قرآن

ترجمہ۔اے ایمان والو اللہ سے ڈرو۔اور چھوڑ دو جو رہ گیا ہے سود سے اگر تم کو یقین ہے۔پھر اگر نہ کرو گے تو خبردار ہو جائو لڑنے کو اللہ اور اس کے رسول سے اور اگر توبہ کرو گےتو تم کو پہنچتے ہیں اصل مال نہ تم کسی پر ظلم کرو او رنہ تم پر ظلم کیا جائے۔

(الحدیث دہلی )          ۔(فتاوی ثنائیہ جلد 2 صفحہ 443۔444)


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 14 ص 91-92

محدث فتویٰ

تبصرے