اگر کوئی حکیم یا ڈاکٹر طوائف کا علاج کرے۔تو اس کو فیس اور قیمت دوا کی لینا جائز ہے۔یا نہیں اور فیس اور دوا کی قیمت میں کچھ فرق ہے۔یا برابر ہے۔اوراسی طرح جو عطار نسخہ باندھتا ہو یا اور کوئی مسلمان دوکاندار جو ان کے ہاتھ سودا کرے۔تو اس کی قیمت لینی کیسی ہے۔اور اس حکیم یا ڈاکٹر میں کچھ فرق ہے۔یا برابر ہیں۔اگر فرق ہو تو وجہ بھی ضرور بیان کی جائے۔ورنہ ان کے علاج وغیرہ کی کیا صورت ہے۔؟
طوائف کا مال جو زنا وغیرہ ناجائز طریقوں سے کمایا ہو چونکہ ازروئے شریعت ان کی ملک نہین ہے۔اس لئے علاج کی فیس یا کسی چیز کی قیمت میں لینا جائز نہیں۔قیمت اور جنس میں کوئی فرق نہیں۔دونوں برابر ہیں۔
(فتاوی ثنائیہ جلد 2 صفحہ 442۔443)