سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(74) کرنسی میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے..الخ

  • 3178
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1088

سوال

(74) کرنسی میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کے نوٹ کرنسی جس کو چلنی بولتے  ہیں۔بمنزلہ روپے کے جاری ہیں۔اور اکثر ان کے نرخ میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔اگر کوئی مسلمان اس کو بحصول منفعت ارزانی میں خریدے اور بروقت گرانی وغیرہ کےاس کو بحصول منافع فروخت کرے تو ازروئے شرع شریف اس میں کمی بیشی جائز ہے یانہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

در صورت مرقومہ اولاً معلوم  کرنا چاہیے۔کہ سرکاری نوٹ دو قسم کے ہوتے ہیں۔سو ایک قسم کے نوٹ کا سو د سرکاری بینک سے ملتا ہے۔دو قسم کا نوٹ بحکم سرکار انگریزی واسطے معاملات روز مرہ رعایاک کے کہ وہ اسے خرید فروخت کریں۔رواج دیا گیا۔پس ہر دو قسم نوٹ حکم روپیہ انگریزی عمل دار ی میں رکھتے ہیں۔چنانچہ اصل  تجارت نوٹ کو بمنزلہ روپے کے سمجھے ہیں۔اور اس سے مال خریدتے ہیں۔اور نیز باہم اس کی بیع و شرع کرتے ہیں۔

ثانیاً بیع و شرع ہر دو قسم نوٹ سے مقصود متعاقدین کا صرف کاغذ کی بیع و شرع نہیں ہے۔بلکہ بیع و شرع اس زر کی مقصود ہے۔جو اس میں مرقوم ہے۔اور ثمنیت اس میں بحکم ترویج حاکم وقت قرار پاتی ہیں۔سو خرید و فروخت کمی اور بیشی کے ساتھ بمقابلہ روپیہ کے یا بیع و شرع نقدین کے بالنسیہ اور تملیک الدین من غیر من علیہ الدین حرام اور ناروا ہوگا۔شرعاً اور اس کو از قسم سفتجہ یعنی ہنڈوی درشنی قرار دیجئے۔اور یہ بات اس پر صادق ہے۔ کہ مثل ہنڈی درشنی جس مہاجن اور تاجر اور سرکاری بینک والوں کو دیا جاوے۔تو وہ بلا تامل زرمرقوم اس کا یا اسباب بالعوض اس کے حوالے کردے گا۔پس سفتجہ کہ اولاً قرض ثانیہ حوالہ ہے۔بدوں کمی و بیشی کے مکروہ اور کمی و بیشی کے ساتھ حرام ہے۔لا ن كل دين وقرض جر نفعا فهو ربوا كذا يستضاد من الهداية وغيرها

لہذا اگر نوٹ مثل ہنڈی کے قرار دیا جاوے تو یہ بھی ممکن نہیں اسے لئے کہ ہنڈی کے تلف سے روپیہ تلف نہیں ہوتا۔اور اس کے عوض میں مہاجن مثنی دیتا ہے۔جیسے منی آرڈر یعنی سرکاری ہنڈی کے  تلف ہونے سے سرکاری خزانے سے مثنی ملتا ہے۔غرض  روپیہ اس کا کسی نہج سے تلف نہیں ہوتا بخلاف نوٹ کے کہ اس کے تلف ہونے سے سرکار ہر گز مثنی نہیں دیتی۔اور جب وہ تلف ہو جائے گا۔تو روپیہ بھی اس کا تلف ہو جائےگا۔اور جو کوئی نوٹ کو اسٹامپ و ٹکٹ پر قیاس کر کے اس کی بیع و شرع میں جواز کمی و بیشی کا سمجھے تو یہ قیاس کرنا اس کا قیاس مع الفارق ہے۔اس واسطے کے واضع اسٹامپ و ٹکٹ نے اس کو واسطے ثمنیت کے وضع نہیں کیا۔بلکہ خواس اپنی عدالتوں میں اس کو رواج قرار دیا ہے۔کہ بزریعہ اس کے دعوی مدعی یا مدعا علیہ کا عند السر کار ممنوع ہوگا۔

چنانچہ عرفاً یہ بات ثابت ہے۔تمام تجاروں میں خریدو فروخت مال کی اسٹامپ و ٹکٹ سے نہیں ہوتی۔اورنہ کوئی ان کو خرید کر اپنے پاس سرکار ی بینک میں رکھتا ہے۔اور نہ کوئی فائدہ انسے سوائے عدالت انگریزی کے حاصل کرتا ہے۔پس اس سے معلوم ہوا کہ اسٹامپ و ٹکٹ بحکم سرکار روپیہ قرار نہیں دیاگیا اورنوٹ قراردیا گیا ہے۔چنانچہ تفصیل اس کی اوپر بیان ہو چکی حاصل کلام حکم نوٹ کا مثل دراہم متعین کے ہوگا۔اور نیز بیع و شرع اس میں مثل دراہم  کے جاری ہوگی۔كما لا يخفي علي العالم الماهر بالفقه والله اعلم با الصواب

(سید شریف حسین)

درحقیقت کمی بیشی اس میں جائز نہیں ہے۔واللہ اعلم۔

کتبہ ابو الاحیا محمد نعیم عفی عنہ 18 زیقعدہ سن1288ھ

ہوالمصوب۔فی الوقعی بیع وشرع نوٹ کی مثل بیع و شرع اثمان کے ہے۔کیونکہ مقصود متعاقدین کا صرف بیع کاغذ کی نہیں ہوتی ہے۔بلکہ بیع دراہم و نانیر کی والعبرة في العقود للمعاني للالفاظ

پس زیادتی  و کمی ممنوع ہوگی واللہ اعلم۔حررہ الراجی عفوربہ القولی ابوالحسنات محمد عبد الحی لا تجاوز اللہ عن زنبہ الجلی والخفی وحفظہ عن موجبات الغی

(ابو الحسنات محمد عبد الحئی)

ہوالموفق۔فی الحقیقت کرنسی نوٹ کی بیع وشرع مثل بیع و شرع دراہم و دنانیر کے ہے۔اس میں کمی بیشی درست نہیں۔واللہ اعلم بالصواب نمقہ خادم الاولیاء الکریم محمد ابراہیم غفرہ اللہ الکریم بن مولانا علی محمد مرحوم۔(محمد ابراہیم)

(فتاوی نزیریہ جلد2۔ص22۔23)        (فتاوی ثنائیہ۔جلد 2۔صفہ 450۔451)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 14 ص 84-86

محدث فتویٰ

تبصرے