سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(74) جناب نے بیان فرمایا ہےکی کھیتی کی زکوٰۃ کھیت کٹتے ہی دی جائے...الخ

  • 3173
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 1018

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 جناب نے بیان فرمایا ہے، ماہ ربیع الاول ۵۹ھ کے رسالہ میں ص ۱۵ سوال نمبر ۵۴۹ کے جواب میں کہ کھیتی کی زکوٰۃ کھیت کٹتے ہی دی جائے ،بخلاف روپے کی زکوٰۃ کے کہ اس میں سال گزرنے پر دی جائے۔ کیا جو مالک نصاب نہیں، جیسا کہ روپے کی زکوٰۃ سال گزرنے پر دی جائے گی، تو مقروض کے پاس تو سال گزرنے تک روپیہ رہنے کا ہی نہیں، اور کھیتی کی کھیت کٹتے ہی دی جائے گی، تو کیا مقروض شخص کو بھی کھیتی کی زکوٰۃ دینی ہو گی۔ اور کوئی شخص زمین دار جو چار آنہ فی بیگہ سال اور غیر زمیندار ۴ع/وعہ/وسے/وللعہ۴/ اور اس بھی زاید لگان (اخراج) ادا کرتے ہیں۔ کیا سب کو دسواں حصہ زکوٰۃ دینی ہو گی۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 جو شخص صاحب نصاب نہیں اس پر زکوٰۃ بھی نہیں، جس مقروض کے پاس سال گزرنے تک روپیہ نہیں بلکہ اس نے قبل از اختتام سائل وائن کو سب روپیہ ادا کر دیا اسی طرح تمام غلہ قرض خواہ کو دے دیا، اور اس کے ملک میں زکوٰۃ کے قابل نہیں بچا تو ایسے شخص پر زکوٰۃ نہیں۔ ہاں جو مدیوں وائن کو روپیہ وغیرہ ابھی نہ دے، اپنے پاس رکھے، اور زکوٰۃ کا وقت آ جائے، تو برابر اس کی زکوٰہ دینی ہو گی، جیسے لوگوں کا قرض واجب الادا ہے، اس سے کئی درجہ زیادہ زکوٰہ اللہ کا قرض ہے۔ ((فدین اللّٰہ احق بالقضآء)) نیز ہر زمین کی پیداوار میں عشر یا نصف عشر و جیسی صورت لازم و فرض ہے، بشرطیکہ مالک پیداوار مسلمان ہو، اور پیداوار نصاب کو پہنچ جائے، خواہ زمین خراجی ہو یا عشری اور خواہ زمین مالک پیداوار کی مملوک ہو یا نہ ہو یعنی مالک پیداوار زمیندار ہو یا غیر زمیندار بہرصورت عشر یا نصف عشر لازم ہے، کیونکہ ادلہ وجوب عشر و نصب عشر عام ہے، کما قال تعالیٰ:
﴿اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّا اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِنَ الْاَرْضِ﴾
((وقال علیه الصلوٰة والسلام فیما سقت السمآء والعیون ادکان عشر یا العشر وفیما سقی بالنضح نصف العشر)) (متفق علیه)
الغرض زمین کا خراج، لگان، معاملہ ، محصول، آبیانہ ادا کرنا پڑتا ہو یا نہ پڑتا ہو ہر حالت میں زکوٰۃ واجب ہے، صرف فرق اتنا ہے کہ جس زمین پر آبیانہ وغیرہ کا خرچ کافی پڑتا ہے، اس میں نصف عشر (بیسواں حصہ) ہے، اور جس پر خرچ وغیرہ نہیں آتا، اس میں (عشر) دسواں حصہ) ہے، جو لوگ زمین کے لگان خراج وغیرہ کی وجہ سے وجوب زکوٰۃ کے قائل نہیں ان کا قول غلط و باطل ہے۔
 ((لانه قد صح عن عمر بن عبد العزیز اَنَّه قال لمن قال لمن قال انما علی الخراج الخراج علی الارض والعشر علی الحب اخرجه البیہقی من طریق یحییٰ بن الام فی الخراج له وفیھا عن الزھری لم یزل المسلمون علی عہد رسول اللّٰہ ﷺ وبعدہٗ یعاملون علی الارض ویستکرونھا ویؤدون الزکوٰة عما یخرج مِنھا وفی الباب حدیث ابن عمر فیام سقت السماء عشر)) (متفق علیه) ویستدل بعمومه انتھیٰ۔
’’یعنی جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم چونکہ زمین کا خراج و لگان وغیرہ ادا کرتے ہیں، لہٰذا ہم پر زکوٰہ واجب نہیں، ان کو امیر المؤمنین عمر ثانی عمر بن عبد العزیز نے یہ دندان شکن جواب دے کر ساکت کر دیا کہ خراج زمین پر ہے، اور زکوٰۃ (عشر) دانوں یعنی زمین کی پیداوار پر ہے، امام بیہقی کی کتاب الخراج میں امام زہری رحمۃ اللہ سے مروی ہے، کہ عہد نبوی سے برابر یہ دستور چلا آیا ہے، مسلمان زمین کی کاشت کرتے ہیں، زمینیں بٹائی وغیرہ پر دیتے لیتے تھے، اور اس کی کل پیداوار کی زکوٰۃ ادا کرتے تھے،حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی یہی امر مستفاد ہوتا ہے کہ شارع علیہ السلام کی جانب سے عشر یا نصف عشر ہے۔‘‘
 لگان و معاملہ وغیرہ مسلمانوں پر شاہی ایجاد ہے، شرعی حکم نہیں، اگر لگان زمین کا جو خلاف شرع ہو، خواہ وہ ۴ فی بیگہ ہو یا ۴ ع یا اس سے زائد زمیندار پر ہو یا غیر زمیندار پر ادا نہ کیا جائے، تو شرعاً کوئی حرج نہیں، اور زمیندار ہو یا غیر زمیندار اگر زکوٰۃ (عشر) نہ ادا کرے تو شرعاً سخت مجرم، یعنی کافر ہے، حدیث میں ہے : ((مَنْ لَّمْ یُزَکِّ فَھُوَ لَیْسَ بِمُسْلِمٍ)) ’جو زکوٰۃ نہ دے وہ مسلمان نہیں۔‘‘

مسئلہ ہذا کے متعلق ائمہ اربعہ کا مذہب:

علماء کے مابین یہ مسئلہ معارک عظیم سے ہے، امام مالک و امام شافعی و امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم کا یہ مذہب ہے، کہ خراج و عشر دونوں لازم ہیں، اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں سوائے خراج کے اور کچھ لازم نہیں۔ چنانچہ ہدایہ میں ہے:
((ولا عشر فی الخارج من ارض الخراج اھ))
فتح القدیر میں ہے:
((وقال الشافعی ومالک و احمد یجمع بینھما لانھما حقاف ذاتا ومحلا وسببا ومصرفا اھ))
گو صاحب ہدایہ نے اپنے مدعا کے اثبات میں تین ادلہ قائم کئے ہیں، مگر حنفی مذہب کے بڑے ٹھیکیدار امام ابن ہمام مصنف فتح القدیر نے تینوں کو مخدوش و منظور فیہ قرار دیا ہے، نیز علامہ قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی حنفی نے اپنی کتاب تفسیر مظہری میں صاف لکھ دیا ہے:
 ((ولم یثبت منع الجمع بین العشر والخراج بدلیل شرعی))
’’یعنی عشر اور خراج میں تفریق کرنا کسی دلیل شرعی سے ثابت نہیں (کہ وہ دلیل خراجی زمین سے عشر کو مانع ہو)‘‘
بعض حنفیہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی امام جائز یا عادل سے خراجی زمین کا عشر لینا صراحۃً ثابت و مذکور نہیں، نہ خلفاء اربعہ سے نہ دیگر کسی صحابی وغیرہ سے پس ثابت ہوا کہ اس پر تمام صحابہ کا اجماع تھا، لیکن علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ نے اس دعویٰ اجماع کو بالکل توڑ دیا ہے فرماتے ہیں:
((لا اجماع مع خلاف عمر بن عبد العزیز والزھری بل لم یثبت عن غیرھما التصریح بخلافھما انتھیٰ))
’’یعنی عمر بن عبد العزیز و امام زہری جیسے حضرات سے اس کے خلاف منقول ہے، تو پھر اجماع کہاں رہا۔بلکہ ان دونوں کے سوائے کسی سے بھی اس کے خلاف تصریح ثابت نہیں۔‘‘
بس مسئلہ ہذا میں جو کچھ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے، وہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ دوم کا بھی مسلک ہے۔ ((لانه کان متیعاً له مقتضیا لا ثارہٖ)) رہا صاحب ہدایہ کا حدیث ((لا یجتمع عشر و خراج فی ارض مسلم)) سے استدلال کرنا، سو اول تو حنفیہ کے امام ابن ہمام نے فرمایا ہے کہ ((وھو حدیث ضعیف))  دوم علامہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے درایہ ص۲۶۸ میں لکھا ہے کہ حدیث:
 ((لا یجتمع عشر وخراج فی ارض مسلم الی قوله وفیه یحییٰ بن عنبسة وھو راہ وقال الدارقطنی ھو کذاب))
’’یعنی یہ حدیث ضعیف ہے، اس میں یحییٰ بن عنبسہ راوی واہی اور کذاب ہے۔‘‘
لیکن میں کہتا ہوں کہ صاحب ہدایہ کا اس سے استدلال پکڑنا بالکل غلط ہے، کیوں کہ حدیث میں لفظ ’’مسلم‘‘ کا صاف بتا رہا ہے کہ مسلمان پر یہ دونوں چیزیں نہیں یعنی امام وقت و بادشاہ وقت کو چاہیے کہ ایک مسلم شخص پر زکوٰۃ کے ہمراہ خراج لگان وغیرہ نہ لگائے اگر کوئی بادشاہ اس مسلمان پر جو صاحب نصاب ہے، اور پورے طور پر موافق شرح زکوٰۃ ادا کرتا ہے، خراج و لگان وغیرہ لگا دے اور جبراً اس سے وصول کرے تو یہ اس کا اپنا جورو استبداد ہے، شرعی حکم نہیں۔ ہاں شرعاً اس مسلمان کو بھی ہر گز حق حاصل نہیں کہ حکام وقت کا مقرر کردہ خراج تو ادا کرے، مگر اس احکم الحاکمین کا مقرر کردہ عشر ہضم کر جائے، اور ادا نہ کرے، اگر ایسا کرے گا، تو یوم الحساب میں اس ذی الجبروت والملکوت کو کیا جواب دے گا، بجز تحسر، افسوس، ندامت، خجالت، حسرب کے کچھ بن نہ پڑے گا، اور عذاب الٰہی میں مرکوس و منکوس ہو جائے گا

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 7 ص 159-162

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ