سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(64) اشد ضرورت کے.... کے واسطے روپیہ قرض لیا.. الخ

  • 3166
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1163

سوال

(64) اشد ضرورت کے.... کے واسطے روپیہ قرض لیا.. الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید نے بہ سبب اشد ضرورت کےاپنی کاشت کھیت کویعنی گنا پر سال آیندہ  کے واسطے روپیہ قرض لیا۔اور قرض روپیہ لینے کے وقت یہ کہا کہ اس وقت میرا کھیت گنا تین ماہ کا بویا ہواہے۔سال آئندہ کو گنا تیار ہونے پر نرخ چھ آنا یا آٹھ آنا فی من بخوشی دوں گا۔اس طرح کی خریدوفروخت شرعاً ٹھیک ہے یا نہیں۔

(ابو محمد عبد اللہ۔لال پور رام پور اسٹیٹ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مرقوم  میں اس بیع کو سلم کہتے ہیں۔جو جائز ہے۔نرخ اور جگہ مقرر ہونی چاہیے۔واللہ اعلم

(اہل حدیث امرتسر جلد24صفحہ 10)

شرفیہ۔سوال کی عبارت سے اس کا بیع سلم ہونا میری سمجھ میں نہیں آیا۔اس لئے کہ بیع سلم میں راس المال یعنی رقم قرضج کی تعین لازم ہوتی ہے۔ ایسے ہی مسلم فیہ اور اجل کی بھی اور صورت مرقومہ میں کچھ بھی نہیں اور شئ معین میں بھی بیع سلم نہیں ہوتی۔اور اجل معلوم سے مراد ماہ دن کی تعین ہوتی ہے۔اور صورت مرقومہ میں تاریخ دن کی تعین نہیں۔قال رسول الله ﷺ من اسلف في شئي فليسلف في كيل معلوم ووزن الي اجل معلوم( متفق علیہ)

مشكواة صفحه 350 وقال في نيل الاوطار قول في كيل معلوم احترز بالكيل من السلم في الاعيان وقوله معلوم عن المجهول من المكيل والموزون وقد كانو في المدينه حين قدم النبي ﷺ يسلفون في ثمار نخيل با عيا نها فنها هم عن زلك                            (جلد 5صفحہ 192)

اور صورت مرقومہ فی السوال میں   تعین کھیت کی ہے۔وقال في النيل ان للسم شروطاّ غير ما اشتمل عليه الحديث ميسوطة في كتب الفقه ولا حاجه لنا في التعرض لما لا دليل عليه الا انه وقع الا جماع علي اشتراط معرفة صفة الشئ المسلم فيه علي وجه بتميز بتلك العرفة عن غيره صفحه مزكور

پس صورت مرقومہ جائز نہیں  (ابو سعید شرف الدین دہلوی)

تشریح۔

بیع سلم نام ہے۔اس بیع کا کہ بالفعل روپیہ دے دیا جائے۔اور جنس ٹہرا لی جائے۔کہ اتنی مدت تک لوں گا۔مثلاً سو روپیہ ایک شخص کو بالفعل دے دیا۔اور اس سے ٹہرایا کہ دو مہینے میں گہیوں۔سومن اس قسم کے لوں گا۔اس کو عربی میں بیع سلم کہتے ہیں۔پھر اگرشرطیں پائی جایئں۔تو یہ بیع درست ہے۔جو کوئی بیع سلم کرے اس چیز میں کہ بیچی جاتی ہے تل کر جیسے زعفران وغیرہ۔تو وزن معلوم میں مثلاً چار تولے یا  پانچ تولے اور ایک مدت معلوم تک جیسے ایک مہینہ یا ایک سال اور مثل اس کے اس سے معلوم ہوا کہ اس میں مدت کا معلوم ہونا شرط ہے۔اور یہی مذہب ہے امام ابو حنیفہ ؒ و مالکؒ واحمدؒ کا حاشیہ ترمذی نو لکشور۔        (فتاویٰ ثنایئہ۔جلد1۔صفحہ 409)

 

شرائط بیع سلم۔ملحض از بدورالا ہلہ از نواب صدیق حسن خاں رحمۃ اللہ علیہ

اول آنکہ قدر مسلم فیہ و جنس آں مذکور گردوزیرا کہ جزباین زکر معلوم نمی تواند شد و شارع معلومیت راشرط کردہ کماتقدم

ودوم معرفت امکانش نزدحلول چہ اگر درسلم زکر وصفے کند کہ دال برعدم امکان باشد برغرض مقصود ازسلم عاید بہ نقص گردودوال است برانعدام آں درحال عقد حدیث  عبد الرحمن بن ايزي وعبد الله بن ابي ادفي قالا كنا نصيب المغانم مع رسول الله ﷺوكان ياتينا انباط من انباط الشام فنسلفهم في الخيطة والشعير و الزيت الي اجل مسمي قيل اكان لهم زرع ام لم يكن قا ل ما كنانسا لهم عن زلك وفي رواية وكنا نسلف علي عهد رسول الله ﷺ وابي بكر و عمر في الخطة والشعير والزيت والنمر وما نراه عندهم اخرجه ابودائود ونسائي وابن ماجهوسکوت  نبوی تقریر است۔

سوم آنکہ ثمن مقبوض باشد در مجلس ولا بدست ازین شرط بلکہ سلم تمام نمی شود مگر بایں قبض ورنہ از بیع کالئی1۔بکالئی یاشد وازآں نہی آمدہ وصحیح است بہر حال زیرا کہ ادلہ دلالت ندارند مگر یہ اشراطیت معلومش از برامسلم و مسلم الیہ واین درہمہ اموال ممکن است ودر انکشاف ردی ہماں حکم است کہ گزشت در کیارعیب ودرصرف چہ دلیل دال است بررہ کردن بر صاحب ردی بنا بر عیب چہارم آنکہ اجلش معلوم باشد وین منصوص علیہ نص وحدلول علیہ دلیل مقدم است          ) ص262 (

خلاصہ یہ کہ جس  چیز کی بدہنی کی جارہی ہے۔اس کا وزن اور جنس معلوم ہونی چاہیئے۔وقت مقرر پر اس کی وصول پابی کایقین ہونا بھی ضروری ہے۔ قمیت مقررہ طے شدہ کو وقت بیع ادا کر دینا بھی ضروری ہے۔اگر قیمت ادا نہ کی گئی تو ادھار کی بیع ادھار کے ساتھ لازم آگے

1.ادھار کی بیع ادھار کے ساتھ اس طرح کے زید نے بکر کو کچھ مال ادھار فروخت کیا اوروقت مقررہ پر جب وقت قیمت ادا نہ کر سکا تو زید نے پھر دوبارہ ایک مدت کیلئے اس کو بکر کے ہاتھ بیچ دیا۔وامله النهي عن بيع ما لم يقبض

اور یہ منع ہے۔اورہر قسم کے مال میں بدھنی درست ہے۔مگر گھٹیا بڑھیا  کی تشریح ہونی چاہیئے۔ورنہ مال والا مختار ہے۔کہ مال ردی دیکھ کر اس کو رد کردے۔اور وقت بھی مقرر ہو کر معلوم ہو جانا شرائط میں سے ہے۔

مصنف عون المعبود قدس سرہ فرماتے ہیں۔قد اختلف العلما في جوازا السلم فيما ليس بمو جود في وقت السلم ازا امكن وجود ه في وقت الحلول الا فزهب الي جوازه الجمهور وقالو ولا يضر انقطا عه قبل الحلول الي اخره عون المعبود جلد 3ص292

مولف۔بیع سلم یعنی بدھنی کرناکاشتکار وغیرہ سے ساتھ نرخ معلوم کے گندم ہویا جو ہوبصف معاومہ اورساتھ اجل معلوم کے درست ہے۔بلا کراہت جیسا کہ کتب احادیث اور فقہ سے واضع ہوتا ہے۔او ر یہ شرط کر کربدنی کرنا کہ بروقت فصل کے بازار کے نرخ سے سیر دو سیر مثلاً زیادہ لیں گے۔جائز نہیں ہے شرعاً ۔۔۔

(سید نزیر حسین عفی عنہ)

(فتاویٰ نزیریہ جلد2 صفحہ11)


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 14 ص77-80

محدث فتویٰ

تبصرے