زید پیش وکالت کو انجام دیتا ہے۔بکر اس پر یہ الزام لگاتا ہے کہ پیشہ وکالت کی مذہباً سخت ممانعت ہے۔بلکہ حرمت کی حد تک پہہنچ جاتی ہے۔لہذا ترک کر دیا جائے۔پس ایسی صورت میں بروئے قرآن وحدیث شریف میں آیا فی الواقعی پیشہ وکالت بموجب قول بکر مذہباً ناجائز و قابل ترک ہے۔اگر ہے تو کس شرط کے ساتھ اگر نہیں ہے تو کسی طرح بصراحت و تفصیل اس فتاویٰ کو اخبار اہل حدیث میں شائع فرما کرآپ عند اللہ ماجور ہوں۔وعند الناس مشکور ہوں۔
پیشہ وکالت کی دو حیثیتیں ہیں۔اصل منصب وکیل۔دوم طریق عمل۔منصب وکیل ہے تو یہ کہ عدالت کو صحیح قانونی مشورہ دے۔اس منصب کے لہاظ سے تو جائز کاموں میں وکالت جائز ہے۔الا ان مقدمات میں جن میں قانون ہی خلاف شریعت ہے۔مثلاً دیوانی میں معیاد قرضہ ما فوجداری میں شراب ۔خمر۔اور زنا کا جواز۔ایسے مقدمات میں بپا بندی قانون پیرعی کرنا بھی خلاف شریعت ہے حق یہ ہے کہ طریق عمل نے اس پیشے کو بہت کچھ مورود الزام بنایا ہے۔جس کی تفصیل کی ضرورت نہیں نہ مناسب ہے۔
(فتاویٰ ثنائیہ۔جلد2 صفحہ 219)