السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
پاکستان میں غیر مسلموں کی متروکہ زمین (جس پر حکومت پاکستان نے مہاجرین کو آباد کیا، ہے، ) کی پیداوار پر عشر ہے یا نہیں؟ جب کہ ہم مہاجرین تین گنا معاملہ ادا کرتے ہیں، زمین نہری ہو یا چاہی اور خراجی زمین کے متعلق بھی وضاحت فرما دی، کہ پاکستانی زمین خراجی ہے یا نہیں؟
۲۔ ہمارے چک نمبر ۸۰ میں جماعت نے اپنا بیت المال قائم کیا ہوا ہے، کی اس میں جو اجناس یا روپیہ جمع ہو، وہ آئندہ سال تک ختم ہو جانا چاہیے یا بچ بھی رہے تو کچھ حرج نہیں؟
۳۔ اگر بیت المال میں سے کسی ایسے شخص کو اناج یا روپیہ بطور قرضہ حسنہ دیا جائے تو جائز ہے یا نہیں، جو کہ ایسا غریب نہیں ہے کہ صدقہ کا مستحق ہو، اور وقتی ضرورت بھی ہے، پھر وہ قرض بھی ادا کر سکتا ہے۔
ان سوالات کے جوابات قرآن و حدیث کے دلائل سے نہایت وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیں تاکہ ہماری جماعت کا اختلاف دور ہو۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
متذکرہ بالا سوالات کے متعلق کوئی صریح حدیث میری نظر میں نہیں ہے، میں اپنا فہم عرض کر رہا ہوں، اس لیے آ پ کو اس پر قانع ہونے کی ضرورت نہیں، بہتر ہے کہ تسکین کے لیے علماء کی طرح رجوع کر لیا جائے۔
۱۔ پاکستان میں بعض زمینوں کی ملکیت متنازع فیہ ہے، جب تک دونوں حکومتیں فیصلہ نہ کریں، یہاں کی زمین کے متعلق حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے، الاٹ منٹوں کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ بتدریج مستقل ملکیت کی طرف رحجان ہو رہا ہے، معاملہ کی شرح میں اس قدر اضافہ، یہ ظالمانہ فعل ہے، جس پر حکومت کو نظر ثانی کرنی چاہیے، اس کے باوجود صحیح مسلک کے مطابق ان پر عشر واجب ہو گا، حکومت لا علمی کی وجہ سے معاملہ تو خراج کی طرح وصول کر رہی ہے، جو اسے انگریزی وراثت میں ملا ہے، حالانکہ زمین کی اسی نوعیت پر سب سے پہلے غور کرنا چاہیے تھا، چونکہ معاملہ زمین کی رقم کے مصارف وغیرہ اور عشر و زکوٰۃ کے مصارف الگ الگ ہیں، اس لیے معاملہ کی اس کثرت کے باوجود عشر اور زکوٰۃ کی فرضیت رہے گی۔
۲۔ بیت المال میں زکوٰۃ آ جانے کے بعد اسے سال میں ختم کرنا ضروری نہیں، بلکہ حسب ضرورت ختم کرنا چاہیے، بیت المال کے مصارف کی نوعیت کا تعین حکومت کا فرض ہے، یا ان لوگوں کا جو بیت المال کا انتظام کریں۔
۳۔ زکوٰۃ کے مصارف قرآن میں متعین اور معلوم ہیں۔ ان میں صرف کرنا ضروری ہے۔
﴿اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائِ وَالْمَسَاکِیْنَ الایة﴾
قرض دینے کے متعلق کوئی نص نظر میں نہیں۔ لیکن اگر اس عمل سے فقراء و مساکین کے حقوق کو نقصان نہ پہنچے، تو کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا، فقراء اور مساکین کی ضرورت کو بروقت پورا ہونا چاہیے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب