سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(69) کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درج ذیل مسائل میں-

  • 3140
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1260

سوال

(69) کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درج ذیل مسائل میں-

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درج ذیل مسائل میں؟
کیا چاہی اور بارانی ملا کر زکوٰۃ ادا کی جائے، غلہ کی مختلف اجناس کا کیا حکم ہے؟ چکونہ یا بٹائی کے دانے ملا کر نصاب پورا ہو  جائے تو کیا عشر دینا پڑے گا؟
۱۔ اگر غلہ پچاس من ہو، جس میں بارانی بتیس من گندم اور چاہی بیس من ہو تو اس پر عشر واجب ہے یا نہیں؟ اگر واجب ہے تو کتنا۔ نیز اس کے پچیس من چنے ہیں۔
۲۔ ایک شخص کے پاس تیس بکریاں اور پندرہ بھیڑیں ہیں، کیا ان پر زکوٰۃ ہے؟
۳۔ ایک شخص کے پاس ۷۵ من اناج ہے، اس نے ۳۵ من اناج پہلے ادھار دینا ہے، اور پانچ من خرچ کمی کا دینا ہے، اب عشر ۷۵ من پر ادا کرے یا ۳۵ من پر؟
۴۔ اگر زمین بٹائی پر ہو، اور غلہ ۳۵ من ہو، لیکن ایک شخص عشر دینا اور دوسرا نہ دینا چاہتا ہوتو کیا اس اکیلے پر عشر واجب ہے یا نہی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 نمبر۱: غلہ ایک موسمی ملایا جائے گا، خواہ چنے ہوں یا گندم یا جو چاہی یا بارانی۔ ہاں عشر نکالنے میں چاہی اور بارانی کا فرق ہے، بارانی کا دسواں اور چاہی کا بیسواں۔ اسی طرح بھیڑیں بکریاں بھی نصاب میں ملائی جائیں گی۔ کیونکہ نصاب کے لحاظ سے سب ایک جنس ہیں، نیز حدیث میں عنہم کا لفظ آیا ہے۔ جو بھیڑ بکری، دنبہ سب کو شامل ہے، اسی طرح غلہ کی نسبت میں تصریح آئی ہے: «صا سقب السماء لفیه العشر»  (الحدیث) یعنی جو جنس کھیتی، بارش یا چشموں وغیرہ سے پرورش پائے یا زمین سے اپنی جڑوں کے زریعے پانی کھینچ لے، اس میں عشر ہے، اس میں گندم، جو، چنے وغیرہ الگ الگ ذکر نہیں، کیا بلکہ ’’ما‘‘ کے لفظ میں سب کچھ جمع کر دیا ہے، جس حدیث میں پانچ وسق (بیس من پختہ) انگریزی آیا ہے، اس میں الگ نہیں کیا، اس سے معلوم ہوا کہ نصاب کے لحاظ سے یہ سب جنسیں ایک ہیں۔ سب کو ملا کر نصاب پورا ہو گیا، تو عشر دینا پڑے گا، اور اخبار تنظیم اہل حدیث کے زکوٰۃ نمبر میں نے سونے چاندی کو بھی ملا دیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ گندم اور چنے وغیرہ اور بھیڑ بکری وغیرہ میں اتنی مناسبت نہیں جتنی سونے چاندی میں ہے، دونوں سے زیور بنتا ہے، دونوں ایک ایک مقصد میں متفق ہیں، یعنی دونوں ثمن بنتے ہیں، اور دوسری اشیاء کی خرید و فروخت کا ذریعہ ہیں۔ ایک کی جگہ دوسرا لینے میں فرق نہیں سمجھا جاتا یعنی عام لین دین میں اشرفیوں کی جگہ روپے اور روپوں کی جگہ اشرفیاں استعمال ہوتی ہیں، اس چیز نے گویا ایک کر دیا۔ پس گندم، چنے، جو وغیرہ یا بھیڑ، بکری، دنبہ وغیرہ سے ان کا ملانا زیادہ مناسب ہے، اس کے علاوہ چاندی کے نصاب میں تو حدیث صحیح ّآئی ہے، اور سونے کے نصاب کی حدیث صحیح نہیں، ہاں ضعیف ہے کہ بیس قیراط یعنی ساڑھے سات تولہ ہے، اور ضعیف میں شبہ رہتا ہے کہ بیس قیراط شاید چاندی کے نصاب ساڑھے باون تولہ کی اس وقت کے لحاظ سے قیمت لگائی گئی ہو، اس لیے ملانے میں احتیاط ہے، آگے ملانے کی صورت میں اختلاف ہے۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ ملانے میں قیمت کا اعتبار کرتے ہیں، اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ وزن کا مثلاً ساڑھے باون تولہ کا نصف سوا چھبیس تولہ چاندی ہو، اور بیس قیراط نصد دس قیراط سونا ہو، مگر دس قیراط کی قیمت چھبیس تولہ چاندی نہ ہو، اور بیس قیراط نصف دس قیراط سونا ہو، مگر دس قیراط کی قیمت چھبیس تولہ چاندی نہ ہو، بلکہ کم ہو تو اس صورت میں امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک زکوٰۃ ہو گی، اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نہیں ہو گی اور اگر سوا چھبیس تولہ چاندی کی قیمت دس قیراط نہ ہوں، بلکہ کم ہوں تو اس صورت میں بھی امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک زکوٰۃ نہیں ہو گی، لیکن ملانے کی یہ جو دوسری وجہ ہم نے بیان کی ہے، کہ شاید بیس (۲۰) قیراط ساڑھے باون تولہ کی اس وقت کے حساب سے قیمت لگائی گئی ہو، یہ چاہتی ہے کہ چاندی کی قیمت دس قیراط کے ساتھ لگائی جائے، نہ کہ عکس (یعنی دس قیراط کے ساتھ) اور یہ وجہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب کو تائید دیتی ہے، کہ سونا چاندی کے ملانے میں قیمت کا اعتبار ہو نہ کہ وزن کا، مگر امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کا عکس کے قائل ہونا اس کے خلاف ہے۔
ہاں اگر یہ کہا جائے، کہ چونکہ ان میں فرق نہیں سمجھا جاتا، جیسے پہلی وجہ میں ہم نے بیان کیا ہے، کہ عام طور پر لین دین میں ایک کی جگہ دوسرا لیا جاتا ہے، اس لیے امام محمد رحمۃ اللہ علیہ عکس کے قائل ہو گئے تو اس صور ت میں امام محمد رحمۃاللہ علیہ پر کوئی اعتراض نہیں۔
خیر یہ تو ملانے کا مسئلہ تھا، اب ادھا رکا سنئے۔ ادھار کا مسئلہ یہ ہے، کہ اگر ادھار جائیداد کو محیط ہو تو پھر عشر نہیں، ورنہ عشر ہو گا، محیط ہونے کا مطلب یہ ہے، کہ اتنا قرض ہو کہ اس کی ساری جائیداد اس میں بک سکے، کمیوں کا خرچ الگ نہیں کیا جاتا جیسے خرچ نوکر یا آلات زرعی یا بیچ وغیرہ الگ نہیں۔ زمین کا چکوتہ اس وقت کے حساب سے نکال کیا جائے، کیونکہ وہ اس کی آمد میں شامل نہیں، ہاں نصاب میں چکوتہ کے دانے شامل ہوں گے، اور حساب عشر میں دانے الگ کر لیے جائیں گے۔ ان کا عشر ان کا مالک دے گا، بٹائی کا بھ یہی حکم ہے۔
حدیث میں چارپائیوں کی نسبت آیا ہے، کہ ان سے مشترکہ طور پر زکوٰہ وصول کرنی چاہیے اور شریک اپنا حساب ٹھیک کر لیں، سو غلہ کی نسبت بھی اسی طرح ہونا چاہیے، خواہ چکوتہ ہو یا بٹائی، مگر مالک زمین اراضی نہ ہو تو یہ اپنے حصے کا دے دے۔ (عبد اللہ امر تسری) (تنظیم اہل حدیث جلد نمبر ۱۵ شمارہ نمبر ۲۳)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 7 ص 150

محدث فتویٰ

تبصرے