السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید مقروض ہے، تجارت کی طرف سے اور غلہ حاصل کرتا ہے، زراعت کی جانب سے عشر دینے میں حیلہ پیش کرتا ہے، کہ جس قدر میں غلہ پاتا ہوں، اس سے زائد دین ہے، تو پھر کیوں کر عشر دوں۔ اب جواب طلب امر یہ ہے کہ زید کا حیلہ بجا ہے یا بے جا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
پیداوار کی زکوٰہ دو طرح پر ہے، ایک تو مقدار معین (حبۃ وسق) پر ہے، اس کے لیے تو مقدار کا ہونا اور قرض سے فارغ ہونا ضرویر ہے، دوسری قسم زراعت کی وہ ہے ، جس کی نسبت فرمایا ہے ﴿وَ اٰتُوْ حَقَّه یَوْمَ حَصَادِہٖ﴾ اس لیے شخص مذکورہ بوجہ قرض داری کے پہلی قسم ادا نہیں کر سکتا۔ دوسری قسم تو ادا کر سکتا ہے۔ جو ہر سال میں حسب وسعت فرض ہے۔ (فتاویٰ ثنائیہ جلد اول نمبر ۴۸۶)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب