السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جس زرعی زمین کی نہر ہے آبپاشی کی جائے، اس زمین کی پیداوار کا انحصار نہر کے پانی پر ہو، اور اس پانی کا معاوضہ آبیانے کی شکل میں حکومت وصول کرتی ہو، اور ہر بندوبست پر حکومت اس آبیانے کی شرح میں اضافہ کرتی جاتی ہو، اور اس آبیانے کے ساتھ مختلف قسم کے ٹیکس مثلاً مہاجر ٹیکس ، ترقیاتی ٹیکس بھی وصول کرتی ہو، کیا اس صورت میں نہری زمینوں کی پیداوار میں عشر ادا کیا جائے یا نصف عشر؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اقول وباللہ التوفیق! نہری زمین کی پیدوار میں عشر دیا جائے یا نصف عشر، یہ سوال غالباً اس لیے پیدا ہوا ہے کہ بعض احادیث میںنہری زمینوں میں سے عشر ادا کرنے کا حکم ہے، اور انہی احادیث میں جہاں ’’انہار‘‘ میں عشر کا ذکر ہے، ان میں بارانی زمینوں کا بھی ذکر ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں بارانی زمینوں اور نہری زمینوں دونوں کے لیے یکساں حکم ہے کہ ان کی پیداوار میں سے عشر ادا کیا جائے، اور اسی بنا پر سائل کو سال کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ بارانی زمینوں میں زمین کو سیراب کرنے کے لیے کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی نہ کسی قسم کا خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے، اور آج کل کی نہری زمینوں مین تو کئی قسم کے اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں، اور اپنی زمینوں تک پانی لانے کے لیے چھوٹے کھالے کھودنے پڑتے ہیں، پھر آبیانہ اور آبیانہ کے ساتھ کئی کئی قسم کے ٹیکس دینے پڑتے ہیں، ایسی حالت میں بارانی زمینوں اور نہری زمینوں کا حکم ایک کیسے ہو سکتا ہے؟
اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کے لفظ ’’الانہار‘‘ کی تشریح کی جائے، تاکہ واضح ہو سکے کہ اس زمانہ میں انہار کی یہی صورت تھی جو آج کل ہے، یا اس سے مختلف تھی، قاضی القضاۃ امام ابو یعلیٰ (متوفی ۵۸ھ اپنی مشہور تصنیف الاحکام السلطانیہ) میں فرماتے ہیں کہ نہریں تین طرح کی ہوتی ہیں۔
((احدہا ما اجراہ اللّٰہ تعالیٰ من کبار الانہار التی لم یحضرہا الآدمیون))
’’ایک قسم نہر کی یہ ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے جاری کر رکھا ہے، اورانسانوں کی محنت کو اس نہر کے تیار کرنے میں کوئی دخل نہیں ہے۔‘‘
جیسا کہ دجلہ اور فرات ((القسم الثانی ما اجراہ اللّٰہ من صغار الانہار فہو علی ضربین))’’یعنی دوسری قسم وہ چھوٹی نہریں ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے جاری کر رکھی ہیں، اس کی دو قسمیں ہیں۔‘‘
قسم اول:… یہ کہ اس قسم کی نہروں میں پانی اس قدر کافی ہے کہ بغیر روکنے یعنی بند لگانے کے اس علاقہ کی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے کافی ہے، ہر ایک زمیندار اپنی زمین کو سیراب کرنے کے لیے بقدر ضرورت پانی لے سکتا ہے، کسی کا کسی دوسرے سے تعارض نہیں۔
قسم دوم:… یہ کہ ان قدرتی نہروں میں پانی کافی مقدار میں نہیں آ رہا، جب تک اس علاقہ کا پہلا زمیندار پانی روک کر اتنا نہ جمع کر لے کہ اس کی زمین سیراب ہو سکے، اس وقت تک دوسرا زمیندار اپنی زمین کو سیراب نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ زمیندار باری باری اپنی زمینیں سیراب کریں۔
یہ دونوں قسم کی نہروں کی وہ جو قدرتی نہریں ہیں، ہر ایک ان نہروں سے بغیر کسی قسم کے اجرت یا معاوضہ یا قیمت ادا کرنے کے پانی حاصل ہو سکتا ہے، اور اپنی زمین کو سیراب کر سکتا ہے۔
تیسری قسم نہر:… فرماتے ہیں:
((ما احتضرہ الادمیون من الارضین فیکون النہر بینہم ملکا مشترکا))
’’وہ نہر جسے اس علاقہ کے لوگوں نے خود نکالا ہے، یہ نہر اس علاقہ کے زمینداروں میں مشترک ہو گی۔‘‘
سب اس کے مالک ہوں گے۔
اس تفصیل کے ذکر کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ احادیث میں بارانی زمینوں کے ساتھ جن نہری زمینوں کا ذکر ہے، یہ وہ نہریں ہیں جو انسانوں نے نہیں کھودیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور اس کا انعام ہے، پس جس طرح بارش سے زمین سیراب کرنے والے کو کسی قسم کی محنت نہیں کرنی پڑتی، اور نہ کسی قسم کا معاوضہ دینا پڑتا ہے، اس طرح قدرتی نہروں سے سیراب کرنے میں کوئی خاص محنت نہیں کرنی پڑتی، اور نہ کسی قسم کا معاوضہ ادا کرنا پڑتا ہے، اس لیے ایسی زمینوں میں عشر ہے۔
اس حقیقت کو پیش نظر رکھ کر امام نووی شرح مہذب میں کسی قدر تفصیل سے لکھتے ہیں ، فرماتے ہیں: چھوٹی نہریں، اور کھالے، جو بڑی نہر سے کھود کر نکالے جائیں، اس میں عشر ہے، یہ مشہور قول شافعہ کا ہے، اس کے بعد شیخ ابو سبل رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ ان کا فتویٰ یہ ہے کہ چھوٹی نہر جو زمیندار خود کھود کر بڑی نہر سے لائیں، اس سے سیراب شدہ زمین سے نصف عشر ہے، اور صاحب تہذیب سے اس کی ایک تشریح یوں نقل کرتے ہیں، کہ اگر چھوٹی نہر یا کھالا یاسا ہے کہ ہر سال اس پر محنت کرنی پڑتی ہے، مٹی یا ریت سے اٹ جاتا ہے، اور اسے کھود کر اسے صاف کرنا پڑتا ہے، تو اس میں نصف عشر ہے، اور اگرا یک دفعہ نہر کھودنے کے بعد کوئی خاص محنت نہیں کرنی پڑتی تو اس میں عشر ہے۔
واضح رہے کہ یہ تمام تفصیلات اس صورت کی ہیں کہ زمیندار خود بڑی نہر سے چھوٹی نہر سے کھود لیتے ہیں، اور اگر کسی دوسرے کی نہر ہو اور اس سے پانی قیمتاً خریدا جائے، تو اس کے متعلق امام رافعی رحمۃ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں:
((قال ابن کج ولو اشتری ما او سقی بہ وجب نصف العشر)) (صفحہ: ۴۶۲ جلد۵)
’’اگر پانی خرید کر زمین سیراب کرے، تو اس میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ زکوٰۃ ہے۔‘‘
کتب فقہ حنفیہ میں بھی اس کا ذکر آتا ہے، صاحب در مختار میں لکھتے ہیں، کہ نصف عشر واجب ہے، جس زمین کو بڑے ڈول سے یا چھوٹے ڈول سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جائے، اس کے بعد لکھتے ہیں، او رکتب شافعیہ میں ہے، اگر قیمتاً خرید کر زمین سیراب کی جائے، تو اس میں نصف عشر ہے، اس کے بعد فرماتے ہیں، ہمارے قواعد اس کے خلاف نہیں ہیں، عبارت یوں ہے:
((وفی کتب الشافعیة او سقاہ بماء اشتراہ وقوا عنا لا تاباہ)) (ص۵۵ جلد۲)
صاحب رد المختار اس کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:
((لان العلة فی العدول عن العشر الیٰ نصفه فی سقی غرب ودالیة ھی زیادة اکلفة وھی موجودة فی شراء للماء))
اس سے معلوم ہوا کہ نہر کا پانی خرید کر زمین سیراب کرنے سے صورت بدل جاتی ہے، اس لے اس کا حکم مختلف ہے، آج کل نہریں حکومت تیار کراتی ہے، اور اس پر لاکھوں کروڑوں روپیہ خرچ کرتی ہے، اور آبیانہ معقول شرح کے ساتھ زمینداروں سے وصول کرتی ہیے، اور ہر بندوبست کے ساتھ آبیانہ کی شرح میں اضافہ ہو جاتا ہے، اس لیے ظاہر ہے کہ ایسی نہری زمینوں کو پانی قیمت یا معاوضہ کے ساتھ حاصل کرنا پڑتا ہے، اس لیے ہمارے ملک کی نہروں سے سیراب ہونے والی زمینوں کا حکم وہ نہیں ہو سکتا، جو بلامعاوضہ و بلا قیمت ادا کئے، قدرنی نہروں کے پانی سے سیراب ہونے والی زمینوں کا ہو سکتا ہے۔
اس حوالہ کی تحقیق کے مطابق ہمارے ملک کی وہ زمین کو سرکاری نہری پانی سے سیراب ہوتی ہے، اس میں نصف عشر یعنی بیسواںحصہ زکوٰۃ واجب ہے، واللہ اعلم وعلمہٗ اتم۔
(العبد المذنب الراجی لرحمۃ ربہ الودود (مولانا) محمد داؤد غزنوی) (الاعتصام جلد ۹ نمبر ۴۵ صفحہ ۹)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب