سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(38) خراجی زمین کی تعریف ۔اور اس میں زکوٰۃ کا حکم ۔

  • 3095
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 8473

سوال

(38) خراجی زمین کی تعریف ۔اور اس میں زکوٰۃ کا حکم ۔

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

علماء اسلام بداۃ الانام کا اس خراج کے بارے میں کیا قول ہے ، جس کو کافروں کے حکام مسلمانوں سے ان کی زمینوں پر رضا مندی سے یا جبراً لیتے ہیں، بایں طور کہ زمین والا (لوگوں ) سے قرضہ لے کر حاکموں کو خراج دے تو کیا اس صورت میں کافروں کے حاکموں کو خراج دینے کے ساتھ زمین والے (کے ذمہ) سے زکوٰۃ ساقط ہو جاتی ہے؟ (یا نہیں) اور کافروں کو یہ خراج دینا کیسا ہے، اور اگر زمین خراجی ہو تو حاکم کافر کو خراج دینے سے مسلمانوں کے ذمہ سے خراج شرعی ساقط ہو جاتا ہے؟ (یا نہیں) اور خراجی زمین کی تعریف کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 واللہ الموفق للصواب، جاننا چاہیے کہ پہلے خراجی زمین کی تعریف کرنی مناسب ہے کہ اس کی حقیقت کیا ہے، اور (خراج) کس سے لیا جائے، اور کس کو دیا جائے؟
سو میں کہتا ہوں کہ علامہ شیخ عبد الحق دہلوی نے شرح مشکوٰۃ میں کہا ہے کہ خراج ان زمینوں کی مقرری پر جاری ہوتا ہے جو ذمیوں کے قبضہ میں چھوڑ گئی ہو۔ انتہیٰ
اور ہدایہ میں ہے کہ جو زمین لڑائی سے ہاتھ لگے، اور اس کے اہل وہیں ٹھہرے رہیں، وہ خراجی زمین ہے، اس لیے کہ اس کے اہل کا کافر اور آبادی پر برقرار رہنا مقرری کی شرط ہے، اور جو (زمین) لڑائی سے ہاتھ لگے اور اس کے اہل اس پر ٹھہرے رہیں، یا امام ان سے صلح کر ے، (تووہ زمین) خراجی ہے ، انتہیٰ
اور مستخلص میں ہے کہ اس کے اہل کا کفر پر برقرار رہنا مقرری خراج کی شرط ہے، جیسا کہ عراق کی زمین میں ہے، انتہیٰ
اور در مختار میں ہے کہ جو ز(زمین) لڑائی سے ہاتھ لگے، اور اس کے اہل اس پر ٹھہرے رہیں یا صلح سے ہاتھ گلے، وہ خراجی ہے، اس لیے کہ وہ کافر کے ساتھ بہت لائق ہے، انتہیٰ۔
درمختار پر شامی والے نے اپنی کتاب شامی میں ماتن کے قول (ا س لیے کہ کافر کے بہت لائق ہے) کی تشریح میں) کہا ہے اس واسطے کہ وہ جزیہ کے مشابہ ہے، اس لیے کہ اس میں ایک قسم کی عقوبت اور سختی ہے،کیونکہ خراج واجب ہے، اگر زراعت نہ کی جائے، بخلاف عشر کے (کہ وہ اس صورت میں واجب نہیں ہوتا) اس لیے کہ وہ پیداوار سے تعلق رکھتا ہے، نہ زمین سے۔
اور کنز اور اس کی شرح علامہ عینی میں ہے کہ جو (زمین) لڑائی سے ہاتھ آئے، اور اس کے اہل اس پر ٹھہرے رہیں، یا (اس طرح ہاتھ لگے) امام ان سے صلح کر لے، تو وہ خراجی ہے، اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب سواد کو فتح کیا تو ان پر ایک جماعت صحابہ کرام کی موجودگی میں خراج مقرر کیا، اور مصرپر بھی مقرر کیا، جب کہ اس پر عمر وبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ٗ نے فتح پائی۔ انتہیٰ
پس ائمہ حنفیہ کی عبارات مذکورہ سے معلوم ہوا کہ خراج ان ذمی کافروں پر ہوتا ہے، جن کو مسلمانوں نے (ان کی) زمین پر لڑائی سے فتح کر کے خراج ٹھہرا رکھا ہو یا ان سے خراج ادا کرنے پر صلح کر لی ہو، اور ائمہ حنفیہ سے کسی نے یہ نہیں کہا ہے کہ خراج مسلمانوں پر ابتداء ہوتا ہے، مسلمان حاکم سے مسلمان پر اور نہ کافر حاکم سے مسلمان پر۔
شامی میں ہے، اس لیے کہ خراج مسلمانوں پر ابتداً مقرر نہیں ہوتا، اس کو قہستانی نے منتقیٰ میں بیان کیا، انتہیٰ۔
لیکن جب مسلمان خراجی زمین کو ذمی سے خریدے، تووہ (خراج) اسی مسلمان کے ذمہ منتقل ہو جاتا ہے، جس نے خراجی زمین کو ذمی سے خریدا ہو۔
پس وہ خراج جسے اب کفار مسلمانوں سے ان کی زمینوں پر لیتے ہیں، باتفاق علماء وہ خراج شرعی نہیں ہے، اور نہ ہی اسے کافروں کو دینے سے مسلمان کے ذمہ سے زکوٰہ ساقط ہوتی ہے، اور وہ خراج کہ جس کے ساتھ امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کے مذہب پر زکوٰۃ واجب نہیں، اس صورت میں ہے کہ جب مسلمان خراجی زمین کو ذمی خراج والے خریدے تووہ خراج جو اس ذمی پر تھا اس مسلمان کی طرف منتقل ہو گا، جس نے زمینوں خراج والوں سے اس زمین کو خریدا تو اس صورت میں اس مسلمان سے خراج ساقط نہیں ہو گا، اس لیے کہ اس نے ذمی سے زمین خریدنے کے ساتھ جو کچھ زمین والے پر خراج وغیرہ تھا۔ اپنے پر لازم کر لیا، تو جب اس سے خراج ساقط نہیں ہوتا، تو ائمہ حنیفہ کے نزدیک اس پر عشر اور خراج جمع نہ ہوں گے۔
اور ائمہ ثلاثہ کا یہ مذہب ہے کہ خراج زکوٰۃ کو ساقط نہیں کرتا۔ اس لیے کہ وہ دونوں علیحدہ علیحدہ حق ہیں، پس زکوٰۃ پیداوار سے متعلق ہے، اور خراج زمین سے، اور اس لیے کہ جن حدیثوں میں زمین کی پیداوار میں زکوٰۃ واجب ہونے کی تصریح ہے، وہ مطلق ہیں، ان میں اس بات کی قید نہیں ہے ( وہ زمین خراجی ہو یا غیر خراجی اور جو ائمہ عشر اور خراج کے جمع ہونے کے قائل ہیں،) انہوں نے کہا ہے کہ حدیث میںجو آیا ہے کہ مسلمان پر عشر اور خراج جمع نہیں ہوتے، وہ حدیث باتفاق علماء اور محدثین کے باطل ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر اور زیلعی کی تخریج ہدایۃ اور ابن ہمام کی فتح القدیر میں بیان ہے، حنفیوں کے اور بھی دلائل ہیں، لیکن وہ سوال کے مقصود سے باہر ہیں، (اس لیے ان کا بیان کرنا مناسب نہیں)
حاصل یہ کہ خراجی زمین وہ ہے جو کو مسلمان امام ذمیوں کے قبضہ میں رکھے جو وہ اس امام کو اس کا خراج دیں یا (وہ زمین ہے، جس کو مسلمان نے اس زمین کو ذمیوں خراج والوں سے خریدا ہو تو خراج اس مسلمان کی طرف منتقل ہو گا، پس جب خراج والوں سے خریدنے کی وجہ سے اس کی طرف خراج منتقل ہوا، تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک عشر اور خراج دونوں جمع نہ ہوں ے، اور علماء حنفیہ سے کسی نے نہیں کہا ہے، کہ مسلمان پر بھی خراج ہوتا ہے، جو وہ اسے حاکم کافر کی طرف سے ادا کرے، اور اس مسئلہ میں علماء زمانہ اہل ہند کی ایک جماعت نے غلطی کی، پس فتویٰ دیا کہ عشر اور زکوٰۃ مطلقاً جمع نہیں ہوتے، اور یہ نہ بیان کیا کہ خراج کی حقیقت کیا ہے؟ اور کس کو دینا چاہیے؟ اور مسلمان سے خراج کون لے؟ اور اگر وہ خراج کی حقیقت اور اس کا مصرف الیہ بیان کرتے تو جس غلطی پر وہ پڑے ہیں، اس سے بچ رہتے، بلکہ انہوں نے ائمہ حنفیہ کے قول کہ مسلمان پر عشر اور خراج جمع نہیں ہوتے، کے اطلاق کو پکڑا اور آئمہ حنفیہج اس اطلاق سے بری ہیں، کیوں کہ انہوں نے تو خراجی زمین کی حقیقت کو اپنی کتابوں میں بیان کیا، جس کو ائمہ حنفیہ کے مذہب سے ادنیٰ معرفت بھی ہو وہ اس بات کو جانتا ہے، جیسا کہ اس کی تحقیق پہلے گزر چکی ہے، پھر انہوں نے خراجی زمین کی تعریف کر کے کہا ہے کہ مسلمان کی زمین میں خراج اور عشر جمع نہیں ہوتے، اور انہوں نے یہ نہیں کہا ہے کہ خراج شرعی حاکم کافر کو دینا جائز ہے، اور اس کے ساتھ عشر واجب نہیں، وہ اس بات سے بری ہیں اور جس نے حنفیوں کی کتابوں سے یہ سمجھا اس نے ان پر بہت بڑا افتراء باندھا، اور بڑی غلطی کی، علامہ شامی وغیرہ نے جو محققین حنفیہ سے ہیں تصریح کی ہے، کہ عشر کے مستحق مصارف زکوٰۃ ہیں، اور خراج کے مصرف فئی والے ہیں، انتہیٰ۔
بہرحال زکوٰۃ و خراج مسلمان حاکم وصول کرے، تاکہ ان کے مصارف شرعیہ میں خرچ کرے، یہ کلام صراحۃ دلالت کر رہی ہے، کہ خراج شرعی حاکم کافر کو دینا جائز نہیں، جب زمین خراجی ہو بایں طور کہ مسلمان اس زمین کو خراجی ذمی سے خریدے اس لیے کہ حاکم کافر خراج شرعی دینے کا اہل نہیں ہے۔
اور درمختار میں ہے کہ جزیہ او رخراج کا مصرف امام ہے۔ انتہیٰ۔
شامی میں ہے کہ خراج کے ساتھ اس لیے مقید کیا، کہ عشر کا مصرف زکوٰۃ کا مصرف ہے، جیسا کہ گذرا ہے،ا نتہیٰ۔
اور کنز اور اس کی شرح علامہ عینی میں ہے کہ جزیہ اور خراج اور جو کچھ ہم نے اہم حرب سے بغیر لڑائی کیے بطریق صلح حاصل کیا، وہ ہم مسلمانوں کے مصالح میں خرچ کرنا چاہیے، جیسے فتنوں کا بند کرنا اور پلوں کا بنانا اور جیسے نفقہ قاضیوں اور عالموں اور مفتیوں اور جہاد کرنے والوں اور ان کی اولاد کا،ا نتہیٰ، مقصود۔
اور اس کے لانے کا مقصود یہ ہے کہ آئمہ حنفیہ رضی اللہ عنہم کا مذہب یہ ہے کہ خراج کو مسلمان امام مسلمانو ں کے مصالح میں خرچ کرے، پس وہ مال جن کو حاکم کافر مسلمانوں سے لیتا ہے، اور اس کو خراج کہتے ہیں، وہ خراج شرعی نہیں بلکہ وہ طاغوتی خراج ہے، جیسے شراب پیوے اور اس کا نام شراب کے سوا کچھ اور رکھے، واللہ سبحانہ تعالیٰ وصلی اللہ علیٰ خیر خلقہٖ سیدنا محمد وآلہٖ واصحابہٖ وسلم۔ (المترجم عبد الودود عفی اللہ عنہٗ عن والدیہ وعن جمیع المسلمین)
یہ حق ہے اور میں کہتا ہوں، اس میں کوئی شک نہیں، کہ خراج اور زمین میں واجب ہوتا ہے، جس میں زراعت ممکن ہو خواہ زراعت کی جائے، یا نہ اور عشر زراعت میں واجب ہے، تو عشر حق زراعت کا ہے، اور اس کے حق دار زکوٰۃ والے ہیں اور خراج حق زمین کا ہے، اور اس کے حق دار فئی والے ہیں، پس عشر اور خراج دو مختلف وجہوں سے دو حق داروں کے علیحدہ علیحدہ دو حق ہیں، تو فقراؤں کے حق اور ارکان اسلام کے ایک رکن کو ساقط کرنا اور اہل فئی کے حق کو باقی رکھنا انصاف کے خلاف ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ، اے ایمان والو! تم اپنی پاکیزہ کمایوں اور اس سے جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو۔
پس یہ آیت بوجہ اطلاق اور عدم خصوصیت کسی زمین کے جو کچھ کسی زمین میں سے نکلے، اس میں عشر کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے، اور بخاری شریف میں روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس زمین کو مینہ یا چشموں یا ندی نالوں کا پانی لگے، اس میں عشر ہے، اور جس کو چھٹے سے پانی دیا جائے، اس میں نصف عشر ہے، تو عموم حدیث خراج اور زکوٰۃ کی جمعیت پر دلالت کرتی ہے، اس لے کہ حدیث عام ہے، خواہ زمین خراجی ہو یا غیر خراجی، بیہقی نے عمرو بن میمون سے روایت کیا ہے کہ میں نے عمر بن عبد العزیز سے پوچھا کہ ایک مسلمان کے پاس خراجی زمین ہے، جب اس سے عشر مانگا جاتا ہے، تو وہ کہتا ہے کہ میرے ذمہ صرف خراج ہی ہے، تو انہوں نے فرمایا کہ خراج یہ زمین پر ہوتا ہے، اور عشر دانوں پر اور یونسؔ رضی اللہ عنہ سے رویات ہے کہ میں زہری سے جزیہ والی زمین کے عشر کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ کے زمانہ میں اور آپ کے بعد بھی ہمیشہ مسلمان کھیتی کرتے رہے، اور زمین کو کرایہ پر لے کر جو کچھ اس میں سے نکلتا، اس کا عشر ادا کرتے تو اس زمین کو بھی ہم ویسے ہی سمجھتے ہیں۔ (یعنی اس کی پیداوار زمین سے بھی خراج دینا چاہیے، ان دونوں کو بیہقی نے نکالا ہے، اور (یہ) مرفوع حدیث کو عشر اور خراج جمع نہیں ہوتے، بناوٹی اور بے اصل ہیں، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ تمام اہل حدیث اس پر متفق ہیں کہ (یہ حدیث) جھوٹی ہے۔ (مترجم عبد الودود عفی عنہ لددھیانوی) (فتاویٰ غزنویہ ص ۱۲۰)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 7 ص 111-119

محدث فتویٰ

تبصرے