سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(31) زیورات کی زکوٰۃ۔

  • 3088
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2066

سوال

(31) زیورات کی زکوٰۃ۔

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زیورات کی زکوٰۃ قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کریں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زیورات کی زکوٰۃ قرآن کی روشنی میں

قرآن مجید میں ارشاد ہے:
﴿وَ الَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّة وَ لَا یُنْفِقُوْنَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ﴾ (القران)
’’جو لوگ سونا چاندی اپنے ذخیروں میں ڈھیر کرتے ہیں، اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو ایسے لوگوں کو عذاب درد ناک کی خوشخبری سنا دو۔‘‘
یہ آیۃ مبارکہ اپنے مضمون کے لحاظ سے اتنی صاف ہے کہ اس سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ مال خواہ نقدی کی صورت ہو، یا زیور کی شکل میں اگر نصاب کا محتمل ہو تو ا س میں زکوٰۃ واجب ہے، چنانچہ امام راوی رحمۃ اللہ عیہ اس آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ:
((الصحیح عندنا فی وجوب الزکوٰة فی الحلی والدلیل علیه قوله تعالیٰ والذین یکنزون الذھب والفضة الخ وایضا العمومات الواردة فی ایجاب الزکوٰة موجودة فی الحلی المباح قال علیه السَّلام فی الرقة ربع العشی وقال یا علی رضی اللّٰہ عنه لیس علیک زکوٰة فاذا ملکت عشرین مثقالا فاخرج نصف مثقال وغیرہ ذالک فھٰذہ الآیة مع جمیع ھٰذہ الاخبار یوجب الزکوٰة فی الحلی المباح ثم نقول ولم یوجد لھٰذہ الدلیل معارض من الکتاب وھو ظاہر لانه لیس فی القرآن ما یدل علی انه لا زکوٰة فی الحلی المباح ولم یوجد فی الاخبار ایضا معارض الا ان اصحابنا نقلوا فی خبر وھو قوله علیه السلام لا زکوٰة فی الحلی المباح الا ان ترمذی قال لم یصح عن رسول اللّٰہ ﷺ فی الحلی خبر صحیح وایضا بتقدیران یصح ھٰذا الخبر فتحمله علی الآلی لان الحلی فی الحدیث مفرد محلی با الالف واللام وقد وللنا علیٰ انه لو کان ھناک خبر معبود سابق وجب انصرافه الیه ولامعھود فی القرآن فی لفظ الحلی الآلی قال تعالیٰ تستخرون منه حلیة تلبسونھا او کان انصراف لفظ الحلی الی اللآلی فسقطت دلالتہٗ وایضا الاحتیاط فی القول لوجوب الزکوٰة وایضاً لا یمکن معاوضة ھذا النص بالقیاس لان النص خیر من القیاس فی فثبت ان الحق ما ذکرنا کشف المغطا عن وجھة الموطا ص ۲۸۱))
’’ہمارے نزدیک صحیح بات یہی ہے کہ زیورات میں زکوٰہ ہے، اور آیت: ﴿وَالذِّیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ الخ﴾ اس پر دلیل ہے، اسی طرح پیغمبر ﷺ سے عمومی روایتیں مباح زیورات میں زکوٰۃ کے وجوب کی دلیل ہیں، چنانچہ پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ چاندی میں زکوٰۃ چالیسواں حصہ ہے ، نیز فرمایا کہ اے علی رضی اللہ عنہ! تم پر زکوٰہ نہیں، مگر جب تم بیس (۲۰) مثقال کے مالک ہو جاؤ تو نصف مثقال ادا کرو، وغیرہ ذلک، پس یہ آیت ان مذکورہ روایتوں کے ساتھ مباح زیور میں زکوٰۃ واجب کر دیتی ہے، پھر ہم یہ بھی کہتے ہیں، کہ اس دلیل کی کوئی آیت قرآن مجید میں معارض موجود نہیں، اور معارض کا غیر موجود ہونا ظاہر ہے، کیونکہ قرآن مجید میں کوئی ایسا حکم موجود نہیں کہ جو اس بات پر صادر کرتا ہو کہ مباح زیوروں میں زکوٰۃ واجب نہیں۔‘‘
اسی طرح حدیث میں بھی کوئی ایسی روایت موجود نہیں، جو اس دلیل کے معارض ہو، سوائے اس حدیث کے کہ «لا زکوٰة فی الحلی المباح» لیکن امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ زیور کی زکوٰہ و عدم زکوٰۃ میں کوئی صحیح روایت موجود نہیں، تاہم اگر اس روایت کو صحیح تسلیم کر لیا جائے، تو پھر ہم اس حکم کو موتیوں کے زیورات پر محمول کریں گے، کیوں کہ حدیث میں لفظ الحلی مفرد معرف باللام وارد ہے، اگر اس جگہ معہود سابق ہے تو اس طرف رجوع کرنا ضروری ہے، اور جو معہود سابق قرآن میں موجود ہے، وہ موتیوں کا زیور ہے، جیسے کہ ﴿تَسْتَخْرِجُوْنَ حِلْیَة تَلْبِسُوْنَھَا﴾ ہے اور جب یہ بات ہے تو اس روایت سے موتیوں کے زیور مراد ہو سکتے ہیں، نہ کہ سونے چاندی کے ، نیز احتیاط وجوب زکوٰۃ میں ہے، اسی طرح قیاس بھی اس نص کا لگا نہیں کھا سکتا۔ کیوں کہ نص قیاس پر فوقیت رکھتی ہے، پس ثابت ہوا کہ حق ہمارے قول کے ساتھ ہے، امام رازی مرحوم کی تفسیر سے صاف ظاہر ہے کہ نہ تو وجوب زکوٰۃ کے خلاف نص موجود ہے، نہ کوئی صحیح حدیث اس کے خلاف ہے، اورنہ قیاس نص کا مقابلہ کر سکتا ہے، وجوب زکوٰۃ کی وضاحت نمایاں اور عیاں ہے۔

زیورات کی زکوٰۃ ا حادیث کی روشنی میں:

حدیث اول: ((عن عمرو بن شعیب عن ابیه عن جدہ ان امرأة اتت رسول اللّٰہ ﷺ ومعرما ابنة لھا وفی یدا بنتھا مسکتان غلیظتان من ذھب فقال لہا رسول اللّٰہ ﷺ اتعطین زکوٰہ ھٰذا قالت لا قال الیسرک ان یسورك اللّٰہ بھما یوم القیامة سوارین من نار قال فخلعتہاما فالقہما الٰی النبی ﷺ وقالت ھما اللّٰہ ورسوله)) (رواہ ابو داؤد)
’’حضرت عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ ایک عورت اپنی بیٹی کو ساتھ لے کو حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی، اور اس کی بیٹی کے دو بھاری دست برنجن تھے، رسول اللہ نے دیکھ کر فرمایا کہ: کیا تو نے اس کی زکوٰۃ ادا کی ہے؟ کہنے لگی نہیں، تو آپ نے فرمایا کہ کیا تجھے یہ بات گوارا ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے قیامت کے روز ان کنگنوں کے عوض آگ کے کنگن پہنائیَ اس عورت نے ان دونوں دست برنجنوں کو حضور کے سپرد کر دیا، اور کہا کہ یہ اللہ اور رسول کا مال ہے۔‘‘
اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ زیورات میں زکوٰۃ واجب ہے، اور ترک ادائیگی زکوٰۃ میں ڈانٹ پلائی گء ہے، رہی اس حدیث کی صحت تو اس کے متعلق عون المعبود جلد دوم ص ۳ میں ہے:
((قال الزیلعی قال ابن القطان فی کتابه اسنادہ صحیح وقال المنذری اسنادہ لا مقال فیه))
’’کہ امام زیلعی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ ابن قطان نے اس حدیث کو اپنی کتاب میں صحیح لکھا ہے اور امام منذری نے اس حدیث کی اسناد کو کلام سے محفوظ قرار دیا ہے۔‘‘
نوٹ:… امام خطابی مرحوم اس حدیث کی توضیح میں رقمطراز ہیں کہ ((انما ھو تفسیر قوله تعالیٰ یَوْمَ یَحْمٰی عَلَیْھَا فِی نَارِ جَہنّم)) یعنی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ توبیخ یوم یحمیٰ علیہما کی تاویل و تفسیر ہے۔
حدیث دوم: ((عن ام سلمة قال تکنت البس اوضاحاً من ذھب فقلت یا رسول اللّٰہ اکنز ھو فقال ما بلغ ان تودی زکوٰة فزکی بکنز)) (رواہ ابو داؤد)
’’حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے سونے کے پازیب پہنے ہوئے تھی، میں نے اس کے متعلق رسول اللہﷺ سے دریافت کیا، کہ کیا یہ کبار کنزر ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: کہ جو چیز نصاب تک پہنچ جائے، اور اس کی زکوٰۃ ادا کی جائے تو وہ کنز میں شامل نہیں۔‘‘
پہلی حدیث کی طرح یہ حدیث بھی اس امر پر واضح دلیل ہے، کہ زیورات میں زکوٰۃ ہے، رہی حدیث کی صحت تو علامہ منذری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے ایک راوی عتاب بن بشیر کو متکلم فیہ قرار دیا ہے، لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی روایت قبول کی ہے، نیز امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ سے محمد بن مہاجر عن ثابت کے واسطہ سے بدیں الفاظ اس روایت کو نقل کیا ہے:((اذا اریت زکوٰة فلیس بکنز)) اور فرمایا ہے کہ امام بخاری مرحوم کی شرط پر صحیح روایت ہے، مگر علامہ عقیلی رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت بن عجلان پر کلام کی ہے، لیکن ابن دقیق العید نے جواباً کہا ہے کہ علامہ عقیلی کی یہ تنقید محض تحامل اور سینہ زوری ہے، ملاحظہ ہو عون المعبود شرح ابی داؤد جلد ۲ ص ۴۔
حدیث سوم: ((عن عبد اللّٰہ بن شداد بن المہاد عن عائشة زوج النبی ﷺ فقالت دخل علی رسول اللّٰہ ﷺ فراٌی فی یدی فتخات من ورق فقال ما ھذا یا عائشة فقلت صنعتھن لك یا رسول اللّٰہ ﷺ قال اتؤدین زکوٰتھن قتل لا او ماشاء اللّٰہ حسبك من النار)) (رواہ الحاکم و ابن حجر رحمة اللّٰة علیه)
’’عبد اللہ بن شداد سے روایت ہے کہ ہم ایک دفعہ جناب عائشہ رضی اللہ عنہا کی خد مت میں حاضر ہوئے جناب عائشہ رضی اللہ عنہا نے (دوران کلام کہا کہ میرے پاس رسول اللہﷺ تشریف لائے، اور میرے ہاتھ میں اس وقت) چاندی کی انگشتریاں تھیں، آپ نے پوچھا: اے عائشہ رضی اللہ عنہا! یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: میں نے ان کوآپ کی خاطر زینت کے طور پر پہن رکھا، فرمایا کیا تو ان کی زکوٰۃ ادا کرتی ہے، میں نے عرض کی کہ نہیں، تو آپ نے فرمایا: کہ تیرے لیے جہنم سے یہی کافی ہے۔‘‘
اوپر کی دونوں حدیثوں کی طرح یہ تیسری حدیث بھی وجوب زکوٰہ کی مہتمم بالشان دلیل ہے جس کے ہوتے ہوئے زیورات کی ز کوٰۃ سے انکار کی مجال نہیں، اور صحت کے لحاظ سے اس حدیث کی پوزیشن جرح سے محفوظ ہے، جیسا کہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو روایت کیا ہے، ((وقال صحیح علی شرط الشیخین)) کہ یہ روایت بخاری و مسلم کی شرط کے مطابق بالکل صحیح ہے، لیکن امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر بحث کی ہے، اور اس کے ایک راوی محمد بن عمرو بن عطا کو مجہول گردانا ہے، اور شیخ عبد الحق رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس جرح کو پسند کیا ہے، لیکن صاحب عون المعبود رقمطراز ہیں کہ امام بیہقی اور یحییٰ بن قطان رحمۃ اللہ علیہ نے امام دارقطنی کی جرح کو غلط قرار دیا ہے، اور محمد بن عمرو بن عطاء کو ثقات میں درج کیا ہے، اسی طرح علامہ ابن دقیق العید رحمۃ اللہ علیہ نے بھی عبد اللہ بن شداد کی روایت کو مسلم رحمۃ اللہ علیہ کی شرط کے مطابق درست قرار دیا ہے، ((کذا فی عون المعبود ص ۵ جلد ۲))
یاد رہے، حضرت مولانا عبد الرحمن رحمۃ اللہ علیہ صاحت تحفۃ الاحوذی مرحوم نے بھی ان تینوں روایتوں کو ذکر فرمایا ہے، اور ان کو قابل حجت تسلیم کیا ہے، اور کہا ہے کہ یہ تینوں روایتیں کلام سے محفوظ ہیں، مولانا موصوف نے ان حدیثیوں کے علاوہ اور حدیثیں بھی وجوب زکوٰۃ و زیورات کے بارہ میں نقل کی ہیں، لیکن پیش نظر مقالہ تفصیل کا متحمل نہیں ہو سکتا، اس لیے ہم صرف دو روایتیں نقل کرتے ہیں، جو یہ ہیں ترتیب کے لحاظ سے یہ چوتھی حدیث ہے۔
حدیث چہارم: ((عن اسماء بنت یزید بن السکن قالت دخلت انا دخالتی علی النبی ﷺ وعلینا اسورة من ذھب فقال لنا اتعطیان زکوٰتھا فقلنا لا قال اماتخا فان ان یسورکما اللّٰہ سورة من النار ادیا زکوٰتھا)) (رواہ احمد تحفة الاحوذی جلد ۲)
’’اسماء بنت یزید سے روایت ہے کہ میں او رمیری خالہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اس وقت ہم سونے کے کنگن پہنے ہوئے تھے، آپ نے دریافت فرمایا کہ تم ان کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو، ہم نے عرض کی کہ نہیں،آپ نے فرمایا: کہ تم اس بات سے خائف نہیں کہ اللہ تعالیٰ تم کو آگ کے کنگن پہنائے، تم دونوں اس کی زکوٰۃ ادا کرو۔‘‘
یہ روایت اس امر کی صاف دلیل ہے، کہ زیور میں زکوٰۃ واجب ہے، جیسے کہ اِوّیاً صیغہ امر وارد ہے، اس حدیث کی صحت کے متعلق عرض ہے، کہ علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے ایک راوی علی بن عاصم پر جرح کی ہے، ضعیف قرار دیا ہے، لیکن تحفۃ الاحوذی کے مصنف نے کہا ہے کہ علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، تفصیل کے لیے تحفۃ الاحوذی جلد دوم کتاب الزکوٰۃ ملاحظہ ہو۔
حدیث پنجم: ((عن فاطمه بنت قیس قالت اتیت النبی ﷺ فیه سبعون مثقالا من ذھب فقلت یا رسول اللّٰہ خذ منه الفریضة فاخذ منه مثقالا وثلاثة ارباع رواہ الدارقطنی)) (تحفة الاحوذی)
’’فاطمہ بنت قیس سے روایت ہے کہ میں ستر (۷۰) مثقال سونے کا ایک ہار لے کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئی، اور عرض کیا کہ آپ اس کی زکوٰۃ وصول فرما لیں، آپ نے اس سے پونے دو مثقال وصول فرما لیے۔‘‘
اگرچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو درایہ میں ضعیف لکھا ہے، لیکن مولانا عبد الرحمان تحفۃ الاحوذی رحمۃ اللہ علیہ میں فرماتے ہیں کہ علامہ ابو نعیم نے اپنی تاریخ میں عباد بن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے اس روایت کی متابعت نقل کی ہے، لہٰذا اس حدیث کے حجت ہونے میں کوئی شبہ کی گنجائش نہیں۔ غرض یہ پانچ ایسی حدیثیں ہیں جو کہ اپنے مضامین اور مطالب کے لحاظ سے اس قدر واضح اور روشن ہیں کہ جن کے مطالعہ کے بعد ہر شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ زیورات میں زکوٰۃ واجب ہے۔

مسلک سلف و خلف:

اس مسئلہ میں مزید خدوخال معلوم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ صحابہ کرام اور ائمہ عظام کی تصریحات پر ایک نگاہ ڈالی جائے، چنانچہ عون المعبود میں ہے:((قال الخطابی واختلف الناس فی وجوب الزکوٰة فی الحلی الخ))

یعنی زیورات کی زکوٰۃ کے متعلق سلف کی مختلف آرائیں ، حضرت عمر فاروق، حضرت عبد اللہ بن مسعود، عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ زیور میں وجوب زکوٰۃ کے قائل ہیں، اسی طرح سعید بن مسیب، سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ، عطاء ابن سیرین، جابر بن یزید، مجاہد، زہری ان حضرات کا بھی یہی قول ہے، اور اسی طرح سفیان ثوری اور احناف کا بھی میلان او ررحجان ہے، لیکن عبدا للہ بن عمر، جابر بن عبد اللہ ، عائشہ، قاسم بن محمد اور شعبی عدم وجوب کے قائل ہیں، امام مالک، امام احمد بن حنبل ایک جلی قول کے مطابق امام شافعی بھی اسی طرف چلے گئے ہیں، آخر میں امام خطابی محاکمہ طور پر اپنی رائے بیان فرماتے ہیں کہ جو لوگ وجوب زکوٰۃ کے قائل ہیں، کتاب وسنت کی روشنی میں ان کا مسلک اصح اور ثابت ہے، اور احتیاط بھی ادا کرنے میں ہے، اصل عبارت کے لیے ملاحظہ ہو، عون المعبود ص ۷۵، جلد ۲۔
اسی طرح علامہ محمد بن اسماعیل امیر یمانی صاحب سبل السلام زیورات کی زکوٰۃ کے متعلق بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ((وفی المسئلة اربعة اقوال الخ)) ’’یعنی اس مسئلہ میں چار اقوال ہیں، چنانچہ:‘‘
قول اول:… زیورات میں زکوٰۃ واجب ہے، یہ بدوبہ اور بعض سلف کا مسلک ہے، اور ایک قول کے مطابق مذکورہ روایتوں پر عمل کرتے ہوئے ،امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی یہی نقطہ ٔ نظر رکھتے ہیں۔
قول دوم:… دوسرا قول نفی زکوٰہ کا حامل ہے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، احمد رحمۃ اللہ علیہ ایک قول کے مطابق امام شافعی کا بھی یہی مذہب ہے، ان کی دلیل وہ آثار ہیں جو دریں مسئلہ پیش کیے جاتے ہیں، لیکن حدیث صحیح کے ہوتے ہوئے آثار کی کوئی وقعت باقی نہیں رہتی۔
قول سوم:… زیور کی زکوٰۃ کا اس کا عاریۃً ہی دے دینا ہی زکوٰۃ ہے، جیسے کہ دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ اور اسماء بنت ابی بکر سے نقل کیا ہے۔
قول چہارم:… زیورات میں زکوٰہ صرف ایک دفعہ واجب ہے، جیسے کہ بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، علامہ صاحب موصوف آخر میں فیصلہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں، کہ صحیح حدیث کی رو سے وجوب زکوٰہ اک قول اظہر اور اثبت ہے، اسی طرح علامہ ابن ہمام صاحب فتح القدیر حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے زیورات میں وجوب زکوٰۃ کے مسئلہ کو اجاگر کرتے ہوئے،بہت سی روایات کا ذکر کیا ہے، جن کو طوالت کے خوف سے چھوڑا جاتا ہے، آخر میں انہوں نے فرمایا ہے کہ ((فی المطلوب احادیث کثیرة مرفوعة غیر انا اقضرنا منھا علی مالا شبھته فی صحته)) (کشف المغفا ص ۲۸۴)’’زیورات میں وجوب زکوٰۃ کے متعلق بہت سی مرفوع روایتیں موجود ہیں، مگر ہم نے انہیں روایتوں کو ذکر کیا ہے، جن کی صحت میں کوئی شبہ نہیں۔‘‘

زیورات میں مانعین زکوٰۃ کے دلائل

اس بارے میں عام طور پر تین دلیلیں پیش کی جاتی ہیں:
(۱) ((عن قاسم ان عائشة رضی اللّٰہ عنہا زوج النبی ﷺ کانت تلی بناتِ اخیھا یتامیٰ فی حجر ھا لھن لاحلی فلا تخرج من حلیھن زکوٰة)) (رواہ مالك)
’’حضرت قاسم سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بھتیجیوں کی کفیل تھیں، اور ان کے پاس زیور تھا، لیکن آپ ان کی زکوٰۃ نہ نکالتیں۔‘‘
اس روایت کو عدم وجوب زکوٰۃ میں پیش کیا جاتا ہے، لیکن اس روایت کے پانچ جواب ہیں:
اوّل:… حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس لیے زکوٰۃ نہ نکالتی تھیں کہ وہ یتیموں کا مال تھا، اور یتیموں کے مال میں زکوٰۃ نہیں ہوتی، جیسے کہ موطا امام محمد رحمۃ اللہ علیہ میں وضاحت سے مذکو رہے۔
دوم:… ہو سکتا ہے کہ وہ موتیوں کے بنے ہوئے ہوں، اور موتیوں کے زیوروں میں زکوٰۃ نہیں ہوتی جیسے کہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے مؤطا میں فرمایا ہے: ((مأ کان من حلی جواھر اولّو لوئٍ فلیست فیه الزکوٰة علیٰ کل حالٍ)) ’’کہ جو زیورات جواہرات اور موتیوں کے بنے ہوئے ہوں، ان میں کسی حال میں زکوٰۃ نہیں ہوتی۔‘‘
سوم:… یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ وہ زیورات نصاب زکوٰۃ کے حامل نہ ہوں، جیسے کہ استاذ الاساتذہ مولانا شرف الدین صاحب مرحوم دہلوی نے شرفیہ میں وضاحت فرمائی ہے۔
چہارم:… حضرت عائشہ کا یہ اثر صحیح حدیثوں کا معارض ہے، اس لیے قابل التفات اور درخود اعتنا نہیں۔
پنجم:… حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایس اکرنا خاص وقت کے ساتھ موقت تھا، اور اسے عمومی حکم حاصل نہیں، کیونکہ آپ رضی اللہ عنہا کی طرف سے وجوب زکوٰۃ کی حدیث اوپر ذکر ہو چکی ہے، ملاحظہ ہو اس مکالے کی حدیث نمبر ۳
(۲) ((عن نافع رضی اللّٰہ عنه عن عبد اللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ عنه کان یحلی بناته وجواریة الذھب ثم لا یخرج من حلیھن الزکوٰة)) (رواہ مالك)
’’حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنی لڑکیوں اور لونڈیوں کو سونا پہنایا کرتے تھے۔ لیکن زکوٰۃ نہیں نکالتے تھے۔‘‘
اس روایت کو بھی نفی زکوٰۃ میں پیش کیا جاتا ہے، اس روایت کا جواب یہ ہے کہ حضر ت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک دوسرا فتویٰ وجوب زکوٰۃ کا بھی ملتا ہے، جو اس اثر کے خلاف ہے، چنانچہ البدائع میں ہے کہ:
((حکی اولا ان الزکوٰة الحلی اعارته ثم قال المروی عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنه معارض بالمروی عنہ ایضا انه زکی حلی بناته ونسائه)) (کشف المغطاء ص ۲۸۱)
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا اس بارے میں پہلا قول یہ ہے کہ زیور کا اعاریۃً اس کا دے دینا ہی اس کی زکوٰۃ ہے مزید برآں عبد اللہ سے ایک اور روایت بھی مروی ہے کہ جو پہلی روایت کے معارض کہ آپ اپنی بیٹیوں اور بیویوں کے زیورات سے زکوٰۃ نکالتے تھے۔ ‘‘
یہ بھی یاد رہے کہ علامہ خطابی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ منذری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبد اللہ بن عمر کو زکوٰۃ کی صف میں شمار کیا ہے۔
(۳) اسی طرح عدم وجوب میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی بھی ایک مرفوع روایت نقل کی جاتی ہے، جو اس طرح ہے کہ ((لیس فی الحلی زکوٰة)) ’’زیورات میں زکوٰۃ نہیں۔‘‘ اس روایت کا جواب یہ ہے کہ مولانا عبد الرحمن صاحب مرحوم صاحت تحفۃ الاحوذی نے وجوب زکوٰۃ کو ثابت کرتے ہوئے اس حدیث پر سخت تنقید کی ہے، اور فرمایا ہے کہ یہ روایت باطل اور موضوع ہے، اسی طرح اور بھی اقوال ہیں، جن کو طوالت کے خوف سے چھوڑا جاتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان سطور کے راقم کے نزدیک مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں سونے چاندی کے زیوروں میں زکوٰۃ واجب ہے، اور عدم وجوب میں محض آثار و اقوال نقل کیے جاتے ہیں، لیکن مذکورہ مرفوع روایات کے سامنے محدثین کرام کے اصول کے مطابق آثار کی کوئی وقعت اور وزن باقی نہیں رہتا۔  (الاعتصام جلد نمبر۱۴، شمارہ ۴۶، ۴۷،۴۸)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 7 ص 101۔108

محدث فتویٰ

تبصرے