السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زیور طلائی و نقرائی کی زکوٰۃ کی نسبت کیا حکم ہے، دی جائے یا نہ دی جائے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مستعملہ زیور کی زکوٰۃ میں اختلاف ہے، میرے ناقص علم میں واجب نہیں، دیوے تو اچھا ہے۔ (اہل حدیث امر تسر ۲۳ ذی الحجہ ۱۳۲۷ھ)
تنقید:… از مولانا ابو الصمصام عبد السلام صاحب مبارک پور اعظم گڑھ
جامع ترمذی شریف میں ہے:
((فرأی بعض اھل العلم من اصحاب النبی ﷺ والتابعین فی المحلی زکوٰة ما کان منه ذھب وفضة وبه یقول سفیان الثوری وعبد اللّٰہ بن المبارک))
’’یعنی بعض صحابہ اور تابعین کے نزدیک سونا اور چاندی کے زیور میں زکوٰۃ ہے، اور سفیان ثوری اور عبدا للہ بن مبارک کا بھی یہی قول ہے۔‘‘
تحفۃ الاحوذی میں عمدۃ القارشرح بخاری سے منقول ہے کہ یہی مذہب امام ابو حنیفہ اور آپ کے اصحاب کا بھ ہے اور ایسا ہی حضرت عمر اور عبد اللہ بن مسعود اور عبد اللہ بن عمر اور عبد اللہ بن عباد رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مروی ہے اور سعید بن المسیب اور سعید بن جبیر اور عطار اور محمد بن سیرین اور جابر بن زید اور مجاہد اور زہری اور طاؤس اور میمون بن مہران اور ضحاک اور علقمہ اور اسود اور عمر بن عبد العزیز اور ذرالہمدانی اور اوزاعی اور ابن شبرمۃ اور حسن بن یحیٰ اور ابن المنذر اور ابن حزم کا قول ہے کہ (زیور میں) زکوٰۃ واجب ہے، ظاہر کتاب اور سنت کی رو سے۔
اور سبل السلام سے منقول ہے کہ اس مسئلہ میں چار قول ہیں، ایک قول یہ ہے کہ زکوٰۃ واجب ہے، اور یہ مذہب ہے، بدویہ اور سلف کی ایک جماعت کا اور امام شافعی کا، ان کے ایک قول کے مطابق ، دوسرا قول یہ ہے کہ زیو رمیں زکوٰۃ نہیں ہے، اور یہ مذہب ہے، امام مالک اور امام احمد اور امام شافعی کا، ان سے ایک قول کے مطابق کیونکہ سلف سے اقوال وارد ہیں، مثلاً ابن عمر رضی اللہ عنہ، اور عائشہ رضی اللہ عنہا، اور انس رضی اللہ عنہ اور جابر رضی اللہ عنہ وغیرہ کے آثار اور جابر رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت ہے: ((لیس فی الحلی الزکوٰة)) سو وہ موضوع اور بے اصل ہے، ملاحظہ ہو تحفۃ الاحوذی ص ۱۲ ج ۱۲۲ منہ جو مقتضی ہیں کہ زیو رمیں زکوٰۃ نہیں ہے، لیکن حدیث صحیح مل جانے کے بعد آثار بے اثر وبے کار ہیں۔
تیسرا قول:… یہ ہے کہ زیور عاریتاً دینا ہی اس کی زکوٰۃ ہے، چنانچہ دارقطنی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ اور اسما بنت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
چوتھا قول:… یہ ہے کہ صرف ایک مرتبہ زکوٰۃ دینا واجب ہے، اس کو بیہقی نے حضرت انس سے روایت کیا ہے، اور سب سے زیادہ ظاہر قول دلیل اور صحیح حدیث وقوی کی رو سے یہ ہے کہ زکوٰۃ واجب ہے۔
حضرت مولانا محمد عبد الرحمن صاحب مبارک پوری شارح ترمذی علیہ الرحمۃ نے تحریر فرمایا ہیل کہ میرے نزدیک ظاہر اور راجح قول یہ ہے کہ سونا اور چاندی کے زیوروں میں زکوٰۃ واجب ہے، یہ احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں۔
پہلی حدیث! ((روی ابو داؤد فی سننه عن عمرو بن شعیب عن ابیه عن جدہ ان امرأة اتت رسولا اللّٰہ ﷺ ومعہا ابنة لھا وفی یدا بنتھا مسکتان غلیظتان فی ذھب فقال لھا اتعطین زکوة ھذا قالت لا قال ایسرک ان یسورک اللّٰہ بھما یوم القیٰمة سوارین من نار فالقتہما الی النبی ﷺ وقالتھما للّٰہ ولرسوله قال الزیلعی فی نصب الرایة بعد ذکر حدیث ابی داؤد ھذا ما لفظہ قال ابن القطان فی کتابہ اسنادہ صحیح و قال المنذری فی مختصر ہ اسنادہ لا مقال فیه الخ))
’’یعنی عمرو بن شعیب سے رویات ہے کہ ایک عورت رسول اللہﷺ کے پاس آئی، اور اس کے ساتھ اس کی ایک لڑکی تھی، اور اس لڑکی کے ہاتھ میں سونے کے دو بھاری کنگن تھے، پس رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا تم نے اس کی زکوٰۃ دی ہے؟ انہوں نے کہا نہیں پس آپ نے فرمایا: کیا تمہیں پسند ہے کہ اللہ تعالیٰ پہنائے قیامت کے دن انہیں دو کنگنوں کے بدلے میں دو کنگن آگ کے، پس انہوں نے وہ کنگن نکال کر نبیﷺ کی طرف ڈال دئیے اور عرض کیا کہ یہ دونوںل اللہ اور رسول کے لیے ہیں۔‘‘
دوسری حدیث! ((عن ام سلمة انھا کانت تلبس اوضاحا من ذھب فقالت یا رسول اللّٰہ اکنذ ھو فقال اذا اذیت زکوۃ فلیس بکنز اخرجه ابو داؤد والدارقطنی وصححه الحاکم کذا فی بلﷺگ المرام وقال الحافظ فی الدرایة قواہ ابن دقیق العید))
’’یعنی ام سلمہ سے رویات ہے کہ وہ سونے کے ز یور پہنتی تھیں پس انہوں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کیا یہ کنز ہے؟ آپ نے فرمایا: اگر تم نے اس کی زکوٰۃ دی ہے تو کنز نہیں ہے۔‘‘
تیسری حدیث: ((عن عبد اللّٰہ بن شداد انه قال دخل علی عائشة زوج النبی ﷺ فقالت دخل رسول اللّٰہ ﷺ فرأی فی یدی فتخات من ورق فقالا ما ھٰذا یا عائشة فقلت صنعتھن اتزین لک یا رسول اللّٰہ قال اتؤدین زکوٰتھن قلت لا او ماشاء اللّٰہ قال ھو حسبک من النار۔ رواہ ابو داؤد واخرجه الحاکم فی مستدرکه وقال صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ وقال الحافظ فی الدرایة قال ابن دقیق العید ھع علی شرط مسلم))
’’یعنی عبد اللہ بن شداد سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے ، تو آپ نے کہا رسول اللہﷺ میرے پاس تشریف لائے، پس میرے ہاتھ میں سو نے کی انگشتری دیکھ کر فرمایا: اے عائشہ! یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: یا رسول اللہﷺ! میں نے ان کو بنایا ہے، تاکہ زینت کروں میں آپ کے واسطے، پس آپ نے فرمایا: تم نے ان کی زکوٰۃ دی ہے، میں نے کہا: نہیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا: وہ کافی ہے، تیرے لیے جہنم سے۔‘‘
چوتھی حدیث: ((عن اسماء بنت یزید قالت دخلت انا دخالتی علی النبی ﷺ وعلینا اسورة من ذھب فقال لنا اتعطیان زکوٰتھا فقلنا لا قال اما تخافان ان یسورکما اللّٰہ سورة من نارا دیا زکوٰتھا۔ ذکرہ الحافظ فی التلخیص وسکت عنه وقال فی الدرایة فی اسنادہ فقال قال صاحب تحفة الاحوذی فقی صحة حدیث یزید نظر لکن لا شک فی انه یصلی للاستشھاد انتھیٰ))
’’یعنی اسما بنت یزید سے روایت ہے، انہوں نے کہا میں اور میری خالہ رسول اللہ کے پاس گئیں، اور ہم سونے کے کنگن پہنے ہوئے تھے، پس آپ نے پوچھا: کیا تم نے زکوٰۃ دی ہوئی ہے؟ ہم نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: کیا تم ڈرتی نہیں ہو کہ اللہ تعالیٰل تم دونوں کو آگ کے کنگن پہنائے، ان کی زکوٰۃ دے دو۔‘‘
پانچویں حدیث: ((عن فاطمة بنت قیس قالت اتیت النبی ﷺ بطوق فیه سبعون مثقالا من ذھب فقلت یا رسول اللّٰٰہ خذ منه فریضة فاخذ منه مثقالا وثلاثة ارباع مثقال اخرجه الدارقطنی وفی اسنادہ ابو بکر الھذلی وھو ضعیف ونصر بن مزاحم وھو اضعف منه و تابعة عباد بن کثیرا اخرجی ابو نعیم فی ترجمة شیبان ببن ذکریا فی تاریخ کذا فی الدرایه۔))
’’یعنی فاطمہ بنت قیس سے روایت ہے کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس ایک طوق لائی جو ۷۰ مثقال سونے کا تھا، میں نے عرض کیا کہ آپ اس فریضہ لے لیں، پس آپ نے اس میں سے پونے دو مثقال لے لیا۔‘‘
چھٹی حدیث: ((عن عبد اللّٰہ بن مسعود قال قلت النبی ﷺ ان لا مرأتی عَلِیْنَا من عشرین مثقالاً قال واسنادہ ضعیف جداً اخرجه الدارقطنی کذا فی الداریة))
’’یعنی عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے، انہوں نے کہا میں نے رسول اللہﷺ سے کہا، میری بیوی کے پاس ۲۰ مثقال سونے کا ایک زیور ہے، تو آپ نے فرمایا: پس اس کی زکوٰۃ ادا کرو۔‘‘
الحاصل سونے اور چاندی کے زیور میں زکوٰۃ واجب ہے، اور عدم وجوب کے ثبوت میں جو آثار ذکر کئے جاتے ہیں، وہ ان احادیث کے سامنے بے اثر ہیں، رہی جابر کی حدیث مرفوع ((لیس فی الحلی زکوٰة)) سو وہ باطل اور موضوع ہے، ((کذا فی تحفة الاحوذی ھذا ما عندی واللّٰہ اعلم بالصواب))
اہلحدیث:… مزید تفصیل مسلک المختام وغیرہ میں بھی دیکھنی چاہیے، یہ سب مذاہب اور اقوال کتب شروع حدیث میں درج ہیں، ہر ایک جماعت اپنے خیال کو اقویٰ سمجھتی ہے، واللہ اعلم۔ (۲ ۲ ستمبر ۱۹۳۹ئ)
دیگر:… زیور میں زکوٰۃ فرض واجب نہیں، اگر کوئی ادا کرے تو اچھا ہے، وجوب یا فرضیت ثابت کرنے کے لیے دلیل قوی قطعی کی ضرورت ہے، مسئلہ ہذا کے متعلق جس قدر احادیث بیان کی جاتی ہیں، ان میں سے ایک بھی ضعف سے خالی نہیں، حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا مسلک یہی ظاہر کیا ہے، (اعلام) محدثین سے امام مالک و احمد و شافعی رحمۃ اللہ علیہم بھی عدم وجوب کے قائل ہیں۔ (سبل السلام) (اہل حدیث ۱۹ ستمبر ۱۹۴۱ئ)
جواب:… سونے اور چاندی کے مستعمل زیورات کی نسبت مختلف روایات کے پیش نظر میرا خیال ہے کہ زکوٰہ احتیاطاً دے دینی چاہیے۔ (حضرت مولانا عبد الغفور (ملا فاضل) بسکو ہری)
بعض:… علماء کا مذہب ہے کہ زیور کا مگنی دے د ینا بھی اس کی زکوٰۃ نکالنے کے مترادف ہے، بعض نے کہا ہے، مستعمل زیوروں میں صرف ایک بار ادائیگی زکوٰۃ فرض ہے، یہ اختلاف اٹھارہ بیس اقوال پر مشتمل ہے، وجوب زکوٰۃ کے لیے جس ٹھوس اور بلا اختلاف ثبوت قطعی کی ضرورت ہے، ایسی کوئی دلیل میری نظر سے نہیں گزری، جہاںتک میں نے غور کیا ہے دلائل کی رو سے زیور مستعملہ میں زکوٰۃ کا وجوب ثابت نہیں ہوتا۔ (فتاویٰ ثنائیہ جلد اول ص ۴۴۵)
توضیح:… نفس سونے اور چاندی کی زکوٰۃ قرآن و حدیث کے قطعی دلائل سے ثابت ہے جس میں کسی کو اختلاف نہیں۔
باقی رہا سونے اور چاندی کی بائیت بدل جانے کے بعد زیورات کی شکل میں تو اس کے متعلق چھ حدیثیں نقل کی گئی ہیں، ان میں صحیح بھی ہیں، اور ضعیف بھی یقوی، بعضہا بعض کے اصول کے مطابق قابل عمل ہیں، کتاب و سنت کا عموم بھی اس کا مؤید ہے، اس کے علاوہ کوئی ایسی صحیح حدیث نہیں ہے جو زیورات کی زکوٰۃ کو مستثنیٰ کرے، صرف علماء کے اقوال ہیں، جو کتاب و سنت کے عمومات کو مخصوص نہیں کر سکتے، لہٰذا صحیح اور قوی مسلک ہے کہ زیورات کی زکوٰۃ فرض ہے،
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب