سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(24) زیور کی زکوٰة کے متعلق حکم

  • 3081
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1190

سوال

(24) زیور کی زکوٰة کے متعلق حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زیور کی زکوٰۃ ہر سال ادا کی جائے یا عمر بھر میں ایک ہی دفعہ ادا کی جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 زیور سے زکوٰۃ کی ادائیگی کے مسئلہ میں چار مذہب ہیں، ایک یہ کہ زیور سے زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے، سفل کی ایک جماعت اسی طرف گئی ہے، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی اس مسئلہ میں ایک قول ملتا ہے، دوسرا یہ کہ زیور سے زکوٰہ ادا کرنا ضروری نہیں ہے، یہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ہے، تیسرا یہ کہ زیور کی زکوٰہ یہ ہے کہ اگر کسی کو کبھی ضرورت پڑے تو اسے عاریۃً دے دیا جائے، اس مسلک کی بنیاد وہ اقوال ہیں جو دارقطنی میں حضرت انس اور حضرت اسماء بنت ابی بکر سے مروی ہیں، چوتھا یہ کہ زیور سے زکوٰۃ ہے جو بیہقی میں وارد ہے، زیور سے زکوٰۃ کے متعلق اصل بات یہ ہے کہ زکوٰہ ادا ہی کی جائے، اور ہر سال ادا کی جائے،عو ن المعبود شرح ابو داؤد اور تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی میں اس پر مفصل بحث کی گئی ہے، اور رسول اللہﷺ سے متعدد صحیح مرفوع روایات، اقوال و آثار صحابہ و تابعین اور تبع تابعین کے ارشادات کے حوالے دئیے گئے ہیں، ان میں سے حضرت ام سلمہ، حضرت عائشہ، فاطمہ بنت قیس اوراسماء بنت یزید سے مروی روایات ہیں، کہ ان کو آنحضرتﷺ نے مختلف اوقات میں مختلف زیور پہنتے ہوئے دیکھا، اور آپ نے ان کو ان سے زکوٰۃ ادا کرنے پر زور دیا۔ اور عدم ادائیگی پر وعید سنائی، اسی طرح زیور کی زکوٰۃ ہر سال ادا کرنی چاہیے، تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی میں دارقطنی کے حوالہ سے حضرت عبدا للہ بن عمر کے بارے میں لکھا ہے کہ ((انه کان یکتبُ الیٰ خاز ن سالم ان یخرج زکوٰة علی نسائه کل سنتبه)) ’’یعنی انہوں نے اپنے خزانچی سالم کو لکھا کہ وہ ان کی عورتوں کے زیور سے ہر سال زکوٰہ ادا کیا کریں۔‘‘

خلاصہ کلام یہ ہے کہ زیور سے عدم ادائیگی زکوٰۃ کے متعلق رسول اللہﷺ سے کچھ مروی نہیں ہے بلکہ یہی ثابت ہے کہ زیور سے زکوٰۃ ادا کی جائے۔(الاعتصام جلد نمبر ۶ شمارہ نمبر ۳۵)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 7 ص 93۔94

محدث فتویٰ

تبصرے