سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(18) سونے کا نصاب صحیح حدیث میں کیا ہے الخ۔

  • 3075
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2841

سوال

(18) سونے کا نصاب صحیح حدیث میں کیا ہے الخ۔

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 سونے کا نصاب صحیح حدیث میں کیا ہے؟ شارع مسلم امام نوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، سونے کے نصا ب میں جنتی روائتیں آئی ہیں، وہ سب ضعیف ہیں، اور حدیث بیس (۲۰) مثقال و بیس دینار کی جو نصاب سونے میں وارد ہوئی ہیں، وہ بھی ضعیف ہیں، صرف اجماع امت اس پر ہے، یہی وجہ ہے کہ امام المحدثین بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نصاب سونے کی کوئی روایت بخاری شریف میں روایت نہیں کی۔
مولانا عبد الوہاب صاحب دہلوی کے نزدیک سونے کا نصاب صرف ساٹھ روپے کی مالیت کا تھا، اب بھی ان کے متقدمین کا یہی خیال ہے، یہ خیال صحیح ہے یا نہیں، ہم تو حدیث بیس دینار کی بنا پر سونے کا نصاب ساڑھے سات تولے سمجھتے ہیں، وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک بھی ۲۰ دینار ہے، مگر آنحضرتﷺ کے زمانے میں ایک دینار کی قیمت تین روپے تھی، پس بیس (۲۰) دینار کے ساٹھ روپے ہوئے، دینار ایک سکہ ہے، ہر ایک زمانہ میں کم و بیش ہوتا رہا ہے، اس لیے اس کی قیمت کا اعتبار ہے، وزن کا نہیں، اور دینار کے وزن میں بھی بہت اختلاف ہے، پس وزن کو نصاب مقرر کرنے پر کوئی قرینہ ہونا چاہیے ((ولا ترینة علیه)) پس آپ یہ تحریر فرما دیںکہ حضورعلیہ السلام کے عہد مبارک میں دینار ذہب کیا وزن تھا۔ اور ((الوزن وزن مکة)) کا لحاظ کرتے ہوئے زمانہ نبوی میں خاص مکہ معظمہ کے اندر دینار کا کیا وزن تھا، نصاب ذہب (سونا) اور فضۃ (چاندی) میں بڑا تفاوت ہے، اور ہر ایک کا نصاب پورا نہ ہو تو نصاب کم میں زکوٰۃ واجب نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 عمرو بن حزم کی طویل حدیث جو آنحضرتﷺ نے ان کو لکھ دی، اور جس میں نصابات مذکور ہیں، اس میں چاندی کا نصاب دو(۲) سو درہم بتایا ہے، اور فرمایا ہے کہ اگر اس سے کم ہو تو پھر اس میں زکوٰۃ نہیں، اور سونے کے متعلق فرمایا: ہر چالیس سے ایک دینار ہے، اور یہ نہیں فرمایا کہ اگر چالیس دینار سے کم ہو تو ا س میں زکوٰۃ نہیں۔ (ملاحظہ ہو مجمع الزوائد جلد ۳ صفحہ ۷۱)
اس سے معلوم وہا کہ سونے کا نصاب چالیس دینار نہیں۔ چالیس دینار کے عدد کا ذکر صرف چالیسواں حصہ بتانے کے لیے ہے، اگر یہ نصاب ہوتو تو جیسے چاندی میں حضورﷺ نے فرمایا ہے، اس سے کم میں نہیں اسی طرح سونے میں بھی فرماتے۔
بلوغ المرام میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مرفوع حدیث ہے کہ سونے کا نصاب بیس دینار یعنی ساڑھے سات تولہ ہے، لیکن محدثین کرام نے اس روایت کے موقوف ہونے پر ترجیح دی۔ یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے، بہت علماء نے لکھا ہے کہ مقاویر میں رائے قیاس کا دخل نہیں، اور محدثین کا اصول ہے کہ قول صحابی میں جب رائے قیاس کا دخل نہ ہو، وہ حکماً مرفوع ہوتا ہے، اس بنا پر یہ قول حکماً مرفوع ہے، اور غالباً یہی وجہ ہے کہ سونے کے نصاب پر قریباً علماء متفق ہیں۔ الا ماشاء اللہ۔
مذکورہ بالا بیان سے نصاب ذہب کی صحت دو طرح ثابت ہوتی ہے، (۱) ایک حکماً مرفوع ہونے کی حیثیت سے (۲) دوم اس پر اجماع ہونے کی حیثیت سے۔
اصول محدثین ہے کہ جب ضعیف حدیث پر اجماع ہو جائے سند کی ضرورت نہیں رہتی (ملاحظہ ہو تدریب الرادی) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اپنی کتاب میں اس کو روایت نہ کرنا، اس کی صحت کے منافی نہیں چونکہ اس کی اسناد کے راوی بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی شرط پر نہیں، اس لیے اس کو بخاری میں نہیں لائے۔
مولونا عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے متقدین کا خیال درست نہیں، کیوں کہ جب قوی دلیل سے سونے کا نصاب چاندی سے الگ ثابت ہو گیا، تو پھر چاندی کے ساتھ قیمت لگانے کے کچھ معنی نہیں، ایسے تو چاندی کی قیمت سونے سے بھی لگا سکتے ہیں، توپھر کیا چاندی کا نصاب بھی دو(۲) سو درہم نہیں رہے گا، اور یہ کہنا کہ دینار ہر زمانہ میں کم و بیش ہوتا رہا ہے، اس سے کیا مراد ہے؟ قیمت کے لحاظ سے یا وزن کے لحاظ سے اگر قیمت کے لحاظ سے مراد ہے تو تین روپیہ قیمت مقرر ہونے کے کیا معنی؟ اور اگر وزن کے لحاظ سے کمی و بیشی مراد ہے تو بھی قیمت ایک نہیں رہ سکتی، اور اگر زمانہ نبوی کی قیمت مراد ہے، تو یہ بھی ٹھیک نہیں، کیونکہ احادیث میں دینار کی قیمت دس درہم بھی آئی ہے، اور بارہ درہم بھی اور زمانہ نبوی میں دینار کے وزن میں کمی و بیشی ثابت نہیں، جیسے چاندی کے سکے درہم میں ثابت نہیں، تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ نصاب زکوٰۃ میں دینار کی قیمت درہم کے ساتھ لگائی جائے، اور درہم کی دینار کے ساتھ نہ لگائی جائے، اس سلسلہ میں ایک حدیث ملاحظہ ہو:
((عن ابن عمر قال کنت ابیع الابل بالنقیع بالدنانیر فأخذ مکانھا الدراھم وابیع بالدراھم فأخذ مکانھا الدنانیر فاتیت النبیﷺ فذکرت ذلك له فقال لا باس ان تاخذھا بسعریومھا مالم تفترقا وبینکما شی)) (رواہ الترمذی و ابو داؤد والنسائی، مشکوٰة) باب النبی عنہا من البیوع فصل)
’’عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں مدینہ منورہ کی منڈی نقیع میں دیناروں کے ساتھ اونٹ فروخت کرتا اور وصولی کے وقت درہم لے لیتا،ا ور کبھی درہموں کے ساتھ فروخت کرنا،ا ور وصولی کے وقت دینار لے لیتا، میں نے نبی ﷺ کے پاس اس کا ذکر کیا، تو حضور ﷺ نے فرمایا: وصولی کے دن کا جو نرخ ہو اس نرخ سے تبادلہ کا کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ قیمت پوری وصول کر لی جائے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چاندی کے نرخ کی تبدیلی کے ساتھ سکوں کا نرخ بھی بدلتا رہتا ہے، اگر بدلنے کا اثر سونے کے نصاب پر پڑے تو چاندی کے نصاب پر بھی پڑنا چاہیے، حالانکہ چاندی پر کسی کے نزدیک نہیں پڑتا۔‘‘
پس سونے کا حساب بھی وہی صحیح ہے جو بیان ہوا ہے، یعنی بیس(۲۰) دینار۔ رہا یہ کہ بیس(۲۰) دینار کا وزن کتنا ہے، سو یہ ساڑھے سات تولے مشہور ہے، کتب حدیث اور فقہ میں اس میں اس کی تفصیل موجود ہے، نیل الاوطار شرح وقایہ وغیرہ میں ملاحظہ ہو۔ سوال میں بیس (۲۰) مثقال کی حدیث کا ذکر ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ایک دینار ایک مثقال کے برابر ہے، اور مثقال ۲/۱.۴ ماشہ کا مشہور ہے، اسی حساب سے بیس (۲۰) مثقال ۲/۱.۷ تولے ہوتے ہیں، پس حدیث سے بیس (۲۰) دینار کے مشہور وزن ساڑھے سات تولہ تائید ہو گئی،اور حدیث ((الوزن وزن حکة)) یہ کیل (پیمانہ) کے مقابلہ میں ہے، سو یہ ان اشیاء میں ہے، جن کی بیع شراد ہوتی رہتی ہے، سکوں کی بیع شراء تو کوئی عام شئے نہیں، بلکہ سکوں سے دوسری چیزیں خرید کی جاتی ہیں، اورسکہ بنانے کا مقصد بھی یہی ہے، پس سکہ اس حدیث کے تحت نہیں آتا، یہی وجہ ہے کہ مکہ اور مدینہ میں وزن کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
یہ کہان کہ ہر ایک کا نصاب کم ہو، توکم میں زکوٰۃ واجب نہیں، یہ غور طلب ہے، کیونکہ راجح مسلک یہ ہے کہ دونوں مل کر نصاب پورا ہو جائے، تو زکوٰۃ واجب ہو جاتی ہے۔ (از قلم از مولانا حافظ عبد اللہ صاحب روپڑی) (ہفت روزہ الاعتصام گوجرانوالہ، ۲۳ مئی ۱۹۵۲ء جلد ۳ شمارہ نمبر ۴۰)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 7 ص 88-91

محدث فتویٰ

تبصرے