سوال: السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ: گذشتہ ایک دو ماہ سے میں نے جماعت اھلحدیث کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے اور اس جماعت کو کافی حق کے قریب والی جماعت سمجھا ہے مگر مجھے کسی نے اب یہ بتایا ھے کہ اس جماعت کے اندر بھی کافی اختلافات ھیں کیا یہ سچ ہے کہ جماعت اھلحدیث
جواب: 1۔اہل الحدیث ایک فکر اور منہج کا نام ہے اور جو بھی اس کا قائل ہے وہ اہل الحدیث میں شمار ہوتا ہے اور وہ فکر اور منہج یہ ہے کہ
سلف صالحین صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین اور فقہائے محدثین کے منہج فہم کے مطابق کتاب وسنت کی اتباع کا نام اہل حدیثیت یا سلفیت ہے ۔
اہل الحدیث کسی متعین امام یا فقہ یا مسلک کی تقلید کے قائل نہیں ہیں اور براہ راست کتاب وسنت کی اتباع کو واجب قرار دیتے ہیں۔ 2۔ جہاں تک اہل الحدیث میں اختلافات کا تعلق ہے تو اگر تو اختلافات سے مراد اجتہادی اختلافات ہیں تو ایسا تو ہر مسلک میں ہے یعنی فقہ حنفی میں امام ابوحنیفہ اور ان کے شاگردوں امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ کے مابین دو تہائی مسائل میں اختلافات موجود ہیں۔ اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے ایک جماعت ہونے کے باوجود ان میں بھی باہم اجتہادی اختلافات تھے۔ پس کتاب وسنت سے براہ راست استدلال کرتے ہوئے علمائے اہل الحدیث میں بھی اختلاف ہو جاتا ہے اور یہ کوئی پریشانی والی بات نہیں ہے۔یعنی اہل الحدیث کا اپنے اصولوں پر اتفاق ہے جبکہ ان اصولوں کی تطبیق اور اپلیکیشن میں فروعات اور جزوی مسائل میں اختلاف ہو جاتا ہے۔ اسی کو آپ ایک سادہ سی مثال سے سمجھیں کہ ایک قانون اور ایک اس کی انٹرپریٹیشن۔ پاکستان کا قانون ایک ہے جبکہ اس قانون کی تشریح وتوضیح میں وکلا کا اختلاف ہو جاتا ہے ۔ پس اہل الحدیث علماء کا باہمی اختلاف تشریح وتوضیح کا ہے نہ کہ مصادر قانون کا۔ مصادر اور اصول سب کے ہاں متفق علیہ ہیں۔ 3۔ بہت سے راہ راست سے ہٹے ہوئے لوگ بھی اپنے اہل حدیث ہونے کا دعوی کرتے ہیں حالانکہ وہ اہل الحدیث کی فکر یا منہج پر نہیں ہوتے ہیں جیسا کہ جماعت المسلمین کا معاملہ ہے جس کا آپ نے حوالہ دیا ہے ۔اس کی مثال میں یوں بیان کروں گا کہ اگر قادیانی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں تو اس میں مسلمانوں کا کیا قصور ہے ؟ یا مسلمانوں کو کس قدر بلیم کیا جا سکتا ہے؟۔ 4۔ اہل الحدیث مسلک کے تحت کچھ جماعتیں ہیں جیسا کہ جماعۃ الدعو ۃ یا مرکزی جمعیت اہل الحدیث وغیرہ ۔یہ جماعتیں مختلف میدانوں میں اپنی خدمات سر انجام دیتی ہیں اور ان کے رہنماوں یا انتظامیہ میں سنجیدگی کا مظاہرہ ہے لیکن بعض جماعتوں کے نچلی سطح کے کارکنان اپنے دعوتی، اصلاحی یا جہادی یا فلاحی کاموں کی بنیاد پر تعصب کا مظاہرہ کر جاتے ہیں اور اپنے ہی کام کو اصل سمجھتے ہیں اور دوسروں کا رد کرتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے اور اس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ 5۔ جو فرق اسلام اور مسلمانوں میں ہے وہی اہل حدیث اور اہل حدیثیت(یعنی فکر اہل حدیث) میں مدنظر رکھیں ۔ اگر تو کوئی شخص مسلمانوں کی وجہ سے اسلام قبول کرتا ہے تو عموما جلد ہی اسلام سے رخصت بھی ہو جاتا ہے کیونکہ مسلمان معصوم نہیں ہیں بہر حال گناہ گار ہیں۔ اور جو اسلام کا مطالعہ کر کے اسلام قبول کرتا ہے تو وہ عموما اسلام پر اللہ کے فضل سے باقی رہتا ہے ۔
جارڈ برنارڈ شاہ نے کہا تھا کہ جب میں قرآن کا مطالعہ کرتا ہوں تو اس سے عظیم کتاب کوئی معلوم نہیں ہوتی اور جب مسلمانوں کو دیکھتا ہوں تو اس سے ذلیل کوئی قوم نظر نہیں آتی۔
بس اہل الحدیث بھی معصوم نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا یہ دعوی ہے۔ ان میں ہر طرح کی شخصی اور اخلاقی برائیاں بھی آپ کو مل جائیں گی جو کہ نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن اہل الحدیث کی فکر خالص اور حق ہے اور آپ اس کا مطالعہ زیادہ سے زیادہ کریں۔
آج اگر آپ اہل الحدیث کی شخصی خرابیاں دیکھ کر اہل الحدیثیت(فکر اہل الحدیث) کو خیر آباد کہیں گے تو میں آپ سے یہ کہنے میں بھی حق بجانب ہوں گا کہ آپ مسلمانوں کے کردار کو دیکھ کر اسلام کو ترک کرنے کے بارے بھی سوچنا شروع کر دیں؟
یہ ہم سب پر واضح ہے کہ آپ اس نکتے تک پہنچی ہوئی ہیں کہ اسلام اور مسلمان میں فرق ہے۔ ہم نے اسلام قبول کیا ہے نہ کہ مسلمانوں کو۔
بس اسی طرح آپ نے کتاب وسنت کو قبول کیا ہے نہ کہ اشخاص اور جماعات اہل الحدیث کو۔ اور اگر تو آپ نے اشخاص اور جماعات اہل الحدیث کو قبول کیا ہے تو آپ نے غلطی کی ہے اور دوبار ہ سے اہل الحدیث فکر کا مطالعہ کریں اور اسے قبول کریں۔
اہل الحدیث اشخاص یا جماعتوں کا نام نہیں ہے کہ جن کے دفاع کی ضرورت پڑے بلکہ یہ ایک منہج اور فکر ہے جس طرح اسلام جماعتوں اور اشخاص کا نام نہیں ہے بلکہ ایک فکر اور نصاب کا نام ہے۔
آپ کو اس فکر کے بارے کوئی سوال ہوں تو ہمیں خوشی ہو گی۔