سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(96) نماز میں نبی علیہ السلام پر درود پڑھنا واجب ہے یا نہیں-

  • 3032
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1079

سوال

(96) نماز میں نبی علیہ السلام پر درود پڑھنا واجب ہے یا نہیں-
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز میں نبی علیہ السلام پر درود پڑھنا واجب ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز میں درود کے وجوب کے قائلین کہتے ہیں کہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے: کیف نقول اذا صلینا علیک فی صلٰوتنا فقال قولوا الحدیث اخرجه ابن حبان و الحاکم و ابن خزیمه و الدارقطنی ہم کہتے ہیں کہ کسی چیز کی کیفیت کی تعلیم اور اس کا امر کیف کا امر نہیں ہے تا کہ ہم صرف وجوب کے ساتھ اس کو مقید کریں اور یہ معنی لغۃ شرعاً اور عرفاً مشہور ہے اور یہ محاورہ سنت رسول میں بکثرت وارد ہوا ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مسئول عنہا کی کیفیت ہی نماز کے درود کی کیفیت ہے کہ اس کا حکم اور تعلیم واقع ہوئی ہے۔ اور وجوب کا بیان ہے مجمل۔ چوں کہ صلوا علیہ کے مجمل ہونے کو اصول مانع ہے اور اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ وجوب کا بیان مجمل ہے تو طبری نے اس پر اجماع کی حکایت کی ہے۔ اس صورت میں مجمل مندوب کا بیان ہو گا نہ کہ مجمل واجب کا اور اگر ہم واجب تسلیم کر لیں تو پھر بھی ایک بار بالفعل اس عہدہ سے خروج حاصل ہوتا ہے۔ جیسا کہ کتب اصول سے واضح ہے پس تکرار کہاں ہے۔ چلو یہ بھی تسلیم کر لیتے ہیں کہ تکرار بھی موجود ہے (مگر اس زیادتی میں اقیمو الصلٰوة اور صلوا کما رأیتمونی اصلی کے بیان پر زیادتی نہیں ہے، مگر وہ زیادہ سے زیادہ اقیموا الصلٰوة اور صلوا کما رأیتمونی اصلی کا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال سے بیان ہے۔ نیز وہ امر جو حدیث سئ صلوٰۃ میں نہ ہو واجب نہیں ہو سکتا، یہ بھی اسی قبیل سے ہے۔ اور اگر بالفرض ہو بھی تو مسئلہ متنازعہ فیہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ سوال تشہد میں درود پڑھنے کا ہے۔ کسی حدیث میں خصوصیت سے تشہد میں درود پڑھنے کا ذکر نہیں مطلق نماز ہے۔ سوال تشہد میں درود پڑھنے کا ہے۔ کسی حدیث میں خصوصیت سے تشہد میں درود پڑھنے کا ذکرنہیں مطظلق نماز میں ہے اور اس میں تنازعہ نہیں۔ اگر اس حدیث سے استدلال کریں کہ ’’البخیل من ذکرت عندہ فلم یصلی علی۔ اخرجه الترمذی تویہ دلیل ناممکن ہے۔ اگر یہ تسلم کر لیں کہ بخل صرف ترک واجبات ہی کا نام ہے تو پھر یہ استدلال درست ہو سکتا ہے لیکن واضح ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ اہل لغت اہل شرع اور اہل عرف اس کا اطلاق غیر واجب پر کرتے ہیں، یہ کہنا بھی درست نہیں کہ مسند الیہ معروف بالام ہے اس لیے حصر کا معنی ہو گا۔ اس لیے یہ اسناد ہے نہ اکثری۔ اسی لیے صاحب تلخیص ایسی عبارت لائے ہیں جو تقلیل پر دال ہے وہ فرماتے ہیں الثانی قدیفید فصی الجنس مگر ہم یہ بھی تسلیم کر لیں تو اگر بخیل کے حقیقی معنی مراد لیے جائیں تو وہ ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو مروت سے متعلق امور میں بخل کرے۔

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 233

محدث فتویٰ

تبصرے