حدیث من کان له امام فقراۃ الامام له قرأة‘‘ مرفوع ہے یا نہیں؟
دار قطنی اپنی سنن میں حدیث عن عبد اللہ بن شداد ان النبی صلی اللہ علیه وسلم قال من کان له امام فقرأة الامام له قرأة۔ ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: کہ اس حدیث کو موسیٰ بن ابی عائشہ سے ابو حنیفہ اور حسن بن عمارہ کے علاوہ کسی نے مسند ذکر نہیں کیا اور یہ دونوں حضرات ضعیف ہیں۔
نیزفرمایا کہ اس حدیث کو سفیان ثوری، شعبہ، اسرائیل، شریک، ابو خالد الدالانی، ابو الاحوص، سفیان بن عیینہ اور جریر بن عبد المجید و غیرہم نے عن موسیٰ بنابی عائشة عن عبد اللہ بن شداد عن النبی صلی اللہ علیه وسلم مرسلاً بیان کیا ہے۔ اور یہی درست ہے۔ اور مجدد الدین ابن تیمیہ نے المنتقی میں لکھا ہے۔ کہ یہ روایت کئی طرق سے مسنداً مروی ہے۔ لیکن وہ تمام طرق ضعیف ہیں۔ درست بات یہ ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث جیسا کہ آپ ملاحظہ فر ما چکے ہیں۔ حفاظ حدیث کے نزدیک معلول ہے۔ اور انہوں نے اس کے مرسل ہونے کی تصریح کر دی ہے۔ اور مرسل ضعیف کی اقسام میں سے ہے اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ کثرت طرق کی بنا پر حدیث قوی ہو گئی ہے۔ پھر بھی یہ عام ہے کیوں کہ مصدرمضاف ہونے کی صورت میں بھی عموم کے الفاظ میں سے ہے۔ جیسا کہ کتب اصول سے واضح ہے اور قرأۃ الامام میں لفظ قرأۃ امام کی طرف مضاف واقع ہوا ہے۔ پس یہ تمام قرأتوں کو شامل ہو گا۔ اور یہ عموم احادیث صحیح کے ساتھ مخصوص ہو چکا ہے۔ جیسا کہ حرت عبادہ بن صامت کی روایت قال صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم الصبح فثقلت علیه القرأة فلما انصرف قال انی اراکم تقرؤن خلف امامکم قال قلنا یا رسول اللہ ای و اللہ قال فلا تعفلو الا بام القرأن فانہ لا صلٰوة لمن لم یقرأ بھا اخرجه ابوداؤد و الترمذی و النسائی و احمد و البخاری فی جزء القرأة و الدار قطنی و صححه البخاری و ابن حبان و الحاکم۔ اور اس حدیث کے شواہد بکثرت موجود ہیں اور اسی معنی میں تعدد دیگر احادیث بھی مروی ہیں۔ کہ جن کی تفصیل کا یہ مقام نہیں ہے۔
امام شوکانیؒ نے بالتفصیل اس کا ذکر فرمایا ہے۔ اور ہم نے اپنی کتاب ہدایۃ السائل عن ادلۃ المسائل میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔
آپ نے اس سے معلوم کیا ہو گا کہ وہ نمازیں جن میں امام جہری قرأۃ کرتا ہے۔ سورہ فاتحہ کا ان میں پڑھنا بھی ضروری ہے۔ اور سرّی نمازوں میں تو بالاولی ہی ضروری ہو گا۔ اگر اس بحث کو کما حقہ پھیلایا جائے تو کلام طویل ہو جائے گی۔ علامہ شوکانیؒ نے اس مسئلہ پر مستقل رسالہ تحریر کیا ہے۔ نیز انہوں نے و بل الغمام اور سیل الجرار وغیرہ تصانیف میں بھی بالتفصیل ذکر فرمایا ہے۔ اور منع قرأۃ کے قائلین کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور احادیث قرأۃ تمام کی تمام صحیح اور معمول بہا ہیں۔ و لا ملجئ الی التاویل ففیه تر العمل بالدلل و عدول عنالحق الحقیق بالقبول الی ابطل الا باطیل و اللہ یقول الحق و ھو یھدی السبیل و فی ھذا کفایۃ لمن له تعقل بجج الھدایة۔ (دلیل الطالب علی ارجح المطالب ۲۹۲، ۲۹۳)