سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(75) ماہ رمضان میں وتر نماز تراویح کے ساتھ بہتر ہیں یا بعد میں ۔

  • 3011
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 4109

سوال

(75) ماہ رمضان میں وتر نماز تراویح کے ساتھ بہتر ہیں یا بعد میں ۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

یک شخص ماہِ رمضان المبارک میں نماز تراویح آٹھ رکعت باجماعت پڑھ کر وتر اس نیت سے چھوڑ دیتا ہے۔ کہ آخر رات میں تہجد کے نوافل پڑھ کر بعد میں وتر پڑھوں گا۔ کیا یہ طریقہ مطابق سنت ہے؟ اور ماہِ رمضان میں نماز تراویح کے بعد عموماً نماز وتر جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہے۔ کیا وتر اس جماعت کے ساتھ پڑھنے بہتر ہیں یا آخر میں اکیلے پڑھنا زیادہ ثواب ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تراویح اور تہجد ایک ہی نماز کے دو نام ہیں اول رات میں پڑھیں تو تراویح کا نام ہو گا، اور رات پڑھی تو اس کو تہجد کہا جاتیا ہے۔ سنن ابن ماجہ میں باب ما جاء فی قیام شھر رمضان کے تحت ایک طویل روایت ہے۔ اس کا مختصر ترجمہ یہ ہے۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔ ہم (صحابہ کرام)نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے آپؐ نے آخری دہا کے کی تین طاق راتوں میں ہمیں (قیام اللیل) نماز تراویح پڑھائی۔ پہلی رات اول حصہ میں پڑھائی۔ یہاں تک کہ تہائی رات گزر گئی۔ دوسری رات نصف شب تک پڑھائی ہم نے بقیہ آدھی رات بھی تراویح پڑھانے کے لیے عرض کیا، تو نبی علیہ السلام نے فرمایا جس نے امام کے ساتھ قیام کیا اس کو پوری رات کے قیام کا ثواب ملے گا۔ تیسری رات حضور علیہ السلام نے اپنے گھر والوںکو جمع کیا۔ دوسرے لوگ بھی حاضر ہو گئے، سب کے ساتھ نماز تراویح پڑھی، یہاں تک کہ ہمیں سحری کا وقت گزر جانے کا اندیشہ ہوا۔‘‘ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح کو رات کے تینوں حصوں میں پڑھا اور اس کا وقت عشاء کے بعد سے آخر رات تک ہے۔ جب نماز تراویح آخر رات تک پڑھائی، تو پھر بتائیے باقی کونسا وقت رہا جس میں تراویح کے بعد فجر سے پہلے کوئی اور نماز پڑھی ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ہی رات میں تراویح اور تہجد الگالگ پڑھنا کسی معتبر روایت سے ثابت نہیں، پس تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص آٹھ رکعت تراویح کے علاوہ رات کے کسی حصہ میں مزید نفل پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے لیکن رات کے اول حصہ میں پڑھی اور آخری حصہ میں پڑھی ہوئی ساری نمازوں کو قیام اللیل ہی کہا جائے گا۔ کیوں کہ بعض نے سینتالیس نفل تک پڑھنے ہیں۔ اور اہل مدینہ چھتیس نفل تک پڑھتے رہے ہیں۔
پہلی رات اور پچھلی رات کی نماز کو الگ الگ شمار کرنا کسی روایت سے ثابت نہیں اور وتر پچھلی رات میں پڑھنا بہتر ہے۔

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 196۔197

محدث فتویٰ

تبصرے