ایک امام مسجد نے قرأت پڑھتے ہوئے قرآن مجید کی ایک آدھا آیت بھول جانے پر نماز کو پورا کرنے کے بعد دہرایا۔ مقتدیوں نے اس کے ساتھ نماز پورا کرنے کے بعد دہرائی۔ کیا واقعی قرأت پڑھتے ہوئے کوئی آیت غلط پڑھی جائے یا بھول کر رہ جائے تو نماز دہرانی پڑتی ہے۔ یا سجدہ سہو کرتا ضروری ہوتا ہے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم منتقٰی میں ہے: عن مسور بن یزید المالکی قال صلی رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فترک اٰیة فقال له رجل یا رسول اللہ ترکت اٰیة کذا و کذا قال فھلا ذکرتنیھا رواہ ابو داؤد و عبد اللہ بن احمد فی مسند ابیه۔ و عن ابن عمر ان النبی صلی اللہ علیه وسبلم صلی صلٰوة فقرء فیھا فلبس علیہ فلما انصرف قال لابی اصلیت معنا قال نعم قال فما منعک۔ رواہ ابو داؤد (منتقی باب الفتح فی قرأة علی الامام و غیرہ)
مسور بن یزید مالکیؒ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ ایک آیت چھوڑ دی۔ ایک شخص نے عرض کیا! یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ نے فلاںفلاں آیت چھوڑ دی، آپؐ نے فرمایا: تو نے مجھے یاد کیوں نہ دلایا: اس کو ابو داؤد نے اور عبد اللہ بن احمد نے اپنے والد کی مسند میں روایت کیا ہے۔‘‘ اور ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اس میں قرأت پڑھنی بھول گئے جب نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت ابی کو فرمایا: تو نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی ہے؟ کہا: ’’ہاں‘‘ فرمایا! تو نے مجھے بتا کیوں نہ دیا؟
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ قرأت میں کسی آیت کے ترک ہنے یا بھول جانے سے نہ نماز لوٹانے کی ضرورت ہے نہ سجدذہ سہو پڑتا ہے ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز لوٹاتے یا سجدہ سہو کرتے۔
اور یہ بھی معلوم ہوا کہ امام کو لقمہ ضرور دینا چاہیے جو لوگ لقمہ دینے سے منع کرتے ہیں ان کا خیال ان احادیث کے خلاف ہے۔ ہاں ایک حدیث منع کی بھی آئی ہے مگر اول تو وہ منقطع ہے اس میں ایک راوی ابو اسحاق ہے جس نے حارث اعور سے یہ حدیث نہیں سنی، نیز حارث اعور کذاب ہے۔ پس یہ حدیث بالکل قابل استدلال نہیں۔ خاص کر مذکورہ بالا احادیث کے مقابلہ میں کیوں کہ وہ قابل استدلال ہیں۔