کیا درمیانی تشہد میں درود پڑھنے کا ثبوت حدیث سے ملتا ہے ؟
شیخ البانی نے درمیانی تشہد میں درود پڑھنے کا ثبوت پیش کیا کہ مسند ابو عوانہ ج ۲ میں صحیح حدیث ہے کہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز بیان فرماتی ہیں جس میں یہ الفاظ ہیں کان یصلی تسع رکعات یجلس فی الثامنة و یدعوا و یصلی علٰی نبیه اور جو لوگ درمیانی تشہد میں درود نہ پڑھنے پر ابو دائود باب تخفیف القعدہ کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے تشہد میں ایسے بیٹتھے جیسے آگ کے انگاروں پر۔
یہ حدیث ضعیف ہے کیوں کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ابو عبید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔ لیکن ان کی ملاقات اپنے والد سے نہیں، اس لیے درمیانی تشہد میں درود کی نفی پر اس حدیث سے استدلال صحیح نہیں۔۔۔۔۔ اور اگر حدیث کی صحت تسلیم بھی کر لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آخری تشہد کی نسبت کم بیٹھتے، یہ مطلب نہیں کہ درود نہ پڑھتے اور اگر درود پڑھ لیا تو صلوٰة بتیراء (دُم کٹی نماز) ہو جائے گی جیسے امام شافعی کا قول ہے یا جیسے حنفیہ کہتے ہیں کہ سجدہ سہو لازم آئے گا۔
خلاصہ:
یہ ہے کہ پہلے التحیات میں درود شریف اور دعا پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟
شیخ البانی کا خیال ہے پڑھ سکتے ہیں اور دلیل یہ ہے کہ: ’’مسند ابو عوانہ میں حضرت عاشئہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعت وتر پڑھتے تو آٹھیوں رکعت میں التحیات میں بیٹھتے، دعا مانگتے اور درود شریف پڑھتے۔‘‘
حضرت حافظ صاحب نے فرمایا ہے کہ ’’اس دلیل سے شرح صدر نہیں ہوتا۔ کیوں کہ نماز وتر کی بعض خصوصیات ہیں جو دوسری نمازوں میں نہیں، شاید یہ بھی نماز وتر کی خصوصیت ہو۔
نیز مسند ابو عوانہ کے حوالہ پر اکتفا ٹھیک نہیں، یہ روایت ابن حبان اور مسلم شریف میں بھی ہے لیکن مسلم شریف میں درود شریف کا ذکر نہیں صرف دعا کا ذکر ہے۔‘‘