سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(40) کیا نماز عیدین میں رفع یدین کرنے کی احادیث سے دلیل ہے ۔

  • 2977
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1254

سوال

(40) کیا نماز عیدین میں رفع یدین کرنے کی احادیث سے دلیل ہے ۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ عیدین کی نماز میں زواید تکبیرات کے اندر اکثر اہلحدیث رفع یدین کرتے ہیں، بالخصوص شہر دہلی میں جو علمائے ہر فریق اہلحدیث کا مرکز ہے۔ وہاں بھی یہ عمل دیکھا گیا ہے احادیث و آثار سے اس پر کیا دلیل ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اہل حدیث اس بارے میں دو روایتیں پیش کرتے ہیں۔ التلخیص الحبیر میں صلوٰۃ العیدین میں تکبیرات کے وقفہ کے متعلق ہے۔۔۔۔۔۔ الٰی قوله عن عمر رضی اللہ عنه انه کان یرفع یدیه فی تکبیرات۔ رواہ البیہقی الخ دونوں روایتوں میں ایک ایک راوی متکلم فیہ ہے، پہلی میں عبد اللہ بن لہیعہ وہ ضدوق ہے خلط بعد گاحتراق کا راوی ہے مسلم نے بھی اس سے مقرونا روایات کی ہے (تقریب التہذیب) دوسری میں بقیہ ابن ولید ہے۔ وہ بھی مسلم و سنن اربعہ کا راوی ہے۔ امام بخاری نے بھی تعلیقاً روایت کی ہے۔‘‘ صدوق کثیر التدلیس عن الضعفاء ہے۔(التقریب التہذیب) یہاں اس کا شیخ محمد بن ولید زبیدی ثقہ اور صحیحین کا راوی ہے۔ اگرچہ ان دو میں کچھ کلام ہے۔  دونوں روایتوں اور دو سندوں کے ملنے سے ہر ایک کو دوسری سے تقویت حاصل ہو گئی ہے۔ گویا ہر واحد ’’حسن لغیرہ‘‘ کے درجہ میں ہے لہذا قابل عمل ہے۔ خصوصاً امام بیہقی و امام ابن منذر کا روایت کر کے اس سے استدلال کرنا اور پھر صدیوں سے محدثین کا اس پر تعامل قابل عمل ہے اور نماز یعنی مطلق نماز میں رفع یدین تو اللہ کی تعظیم اور سنت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ قاله الامام الشافعی (فتح الباری)
و نقل ابن عبد البر عن ابن عمرؓ انه قال رفع الیدین زینة للصلٰوة و عن عقبة بن عامر قال لکل رفع عشر حسنات بکل اصبع حسنة (فتح الباری انصاری ص ۴۰۳ جلد اول، بہر حال یہ فعل تعظیم الٰہی اور اس کی توحید فعلی باعث ثواب ہے اور یہ فعل حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے (و قد قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم انی لا ادری ما بقائی فیکم فاقتدوا بالذی من بعدی ابی بکرؓ و عمرؓ (رواہ الترمذی مشکوٰة ص ۵۶۰) و اللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 156۔157

محدث فتویٰ

تبصرے