سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(37) ایک شخص رفع الیدین کے میں حقارتاً کہے کہ یہ لوگ روتے پیٹتے ہیں الخ

  • 2974
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1278

سوال

(37) ایک شخص رفع الیدین کے میں حقارتاً کہے کہ یہ لوگ روتے پیٹتے ہیں الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا حکم ہے ایسے شخص کے حق میں جو چند ایک نمازیوں کی موجودگی میں طنزاً یا استہزاً یا حقارتاً رفع الیدین کے بارے میں کہے کہ یہ لوگ روتے پیٹتے ہیں اور ساتھ ہی حقارت کے طور پر ہاتھ سے اشارہ بھی کرے جواب مدلل ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شخص مذکور جہالت کرتا ہے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے اسے انکار ہے تو کیا حضرت پیر جیلانیؒ کی کتاب غنیۃ الطالبین بھی اس نے نہیں دیکھی، اسے دیکھے اور آئندہ ایسی جہالت کے الفاظ نہ کہے ورنہ ایمان کا خطرہ ہے۔
تشریح از قلم حضرت مفتی مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ صاحب قدس سرہ العزیز
اہل حدیث کا مذہب ہے کہ نماز میں رکوع کرتے ہوئے اور اس سے سر اٹھاتے ہوئے دونوں ہاتھ مثل تکبیر تحریمہ کے کانوں تک اٹھانے مستحب ہیں کیوں کہ صحیح بخاری و مسلم کی روایت ہے: عن ابن عمر ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کان یرفع یدیه حذو منکبیه اذا افتتح الصلٰوة و اذا کبر للرکوع و اذا رفع رأسه من الرکوع فعلھما کذالک (متفق علیه) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی دونوں ہاتھ اٹھاتے۔‘‘ چونکہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رفع الیدین کرنے میں کسی فریق کو اختلاف نہیں حنفیہ بھی مانتے ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رفعیدین عند الرکوع کیا،مگر منسوخ کہتے ہیں لہذا ہمیں زیادہ ثبوت دینے کی اس موقع پر حاجت نہیں بلکہ فریق ثانی کے ذمجہ ہے کہ وہ نسخ کا ثبوت دیں، اس لیے بجائے مزید ثبوت دینے کے حنفیہ کرام کے دعویٰ نسخ کی پڑتال مناسب ہے۔
اس دعویٰ پر حنفیوں کی سر دفتر دو حدیثیں ہیں ان میں سے بھی ایک اول اور ایک دوم درجہ کی ہے اول سردفتر حدیث روایت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے جو ترمذی میں ہے جس کے الفاظ معہ ترجمہ یہ ہیں: قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلی بکم صلٰوة رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فصلی فلم یرفع یدیه الا فی اول مرة (ترمذی) عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے شاگردوں سے کہا میں تم کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز بتلاؤں؟ یہ کہہ کر انہوں نے نماز پڑھی تو سوائے اول مرتبہ کے رفع الیدین نہ کیا۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ رفع الیدین منسوخ ہے۔ جب ہی تو ایسے بڑے جلیل القدر صحابی نے رفع الیدین نہ کی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ابن مسعود کی حدیث سے نسخ ہونا ثابت نہیں ہوتا اس لیے کہ ممکن ہے ابن مسعود کے نزدیک جیسا کہ ہمارا مذہب ہے (رفعیدین ایک مستحب امر ہے جس کے کرنے پر ثواب ملتا ہے اور نہ کرنے سے نماز کی صحت میں کوئی خلل نہیں آتا۔ علاوہ اس کے یہ کیونکر ممکن ہے ہ ایک امر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بروایات صحیحہ ثابت ہو وہ صرف کسی صحابی کے نہ کرنے سے منسوخ قرار دیا جائے حالاں کہ وہ حدیث بقول عبد اللہ بن مبارک جیسے جلیل القدر محدث کے ثابت بھی نہیں اگرچہ بقول تحقیق امام ترمذی حسن ہے تو بھی صحیح کے درجہ تک نہیں پہنچ سکتی، خصوصاً جس حال میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کااس پر عمل عام طور پر ثابت ہے۔ تو دعویٰ نسخ کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے غور سے سنئے! عن ابی حمید الساعدی سمعته و ھو فی عشرة من اصحاب النبی صلی اللہ علیه وسلم یقول انا اعلمکم بصلٰوة رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم الٰی ان قال ثم یقرء ثم یکبر و یرفع یدیه حتی یجاذی بھما منکبیہ ثم یرکع الی ثم سلم قالوا صدقت ھکذا کان یصلی (رواہ ابو داؤد و الدارمی و الترمذی و قال ھذا حدیث حسن صحیح)
ابو حمید ساعدی نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دس صحابہ کی مجلس میں دعویٰ کیا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تم سے بہتر جانتا ہوں ان کے کہنے پر اس نے بتلائی تو رکوع کرتے ہوئے اور سر اٹھاتے ہوئے دونوں وقت رفعیدین کی اور ان دسوں صحابہ کرام نے تصدیق کی کہ بے شک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔
یہ روایت اور دس صحابہؓ کی تصدیق ملانے سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ جن روایتوں میں آیا ہے۔ کہ کسی ایک آدھ صحابی نے رفعیدین نہیں کی ان کو نماز کے ضروری ضروری ارکان خصوصاً قومہ جلسہ اعتدال وغیرہ (جن میں لوگ عموماً سستی کیا کرتے ہیں۔ چنانچہ حدیث مسئ الصلوٰة سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بعض لوگ ارکان صلوٰۃ میں سستی کرتے تھے ان) کی نسبت حاضرین کو تنبیہ کرنی مقصود ہوتی ہے نہ کہ امور مستحبہ کا بیان بھی۔
علاوہ اس کے اگر کسی امر میں جو سرور کائنات علیہ افضل التحیۃ و الصلوٰۃ سے ثابت ہو، کسی ایک صحابی کے نہ کرنے سے نسخ ہو سکتا ہے تو یہی ابن مسعودؓ رکوع کے وقت چوں کہ تطبیق کرتے تھے دونوں ہاتھوں کو زانوئوں پر نہ رکھتے تھے، چنانچہ صحیح مسلم میں ان کا یہ مذہب ثابت ہے بلکہ اپنے شاگردوں کو اس فعل کی تاکید مزید کیا کرتے تو لا محالہ اس وقت جب کہ انہوں نے رفع یدین نہ کی ہو گی، زانوئو پر ہاتھ بھی نہ رکھے ہوں گے۔ کیوں کہ دوسری روایتوں سے۔ ان کا مذہب یہی ثابت ہوتا ہے تو پس چاہیے کہ رکوع کے وقت زانوئوں پر ہاتھ رکھنے بھی منع ہوں حالاں کہ کسی کا مذہب نہیں اور تو کسی کا کیا ہوتا خود حنفیہ کا بھی نہیں بلکہ اگر اس قسم کی روایات خود آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سوائے اول دفعہ کے رفع یدین نہیں کی تو بھی نسخ نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ سنت خاصکر مسحب امر کے لیے تو دوام فعل ضروری نہیں، دوام تو موجب وجوب ہے۔ سنت یا مسحب تو وہی ہوتا ہے کہ فعل مرۃ و ترک اخریٰ (کبھی کیا ہو اور کبھی چھوڑ دیا ہو)جس کا اہل معقول کی اصطلاح میں مطلقہ عامہ کہنا چاہیے اور یہ تو ظاہر ہے کہ مطلقہ عامہ نقیض نہیں ہوتا۔ دوسری دلیل نسخ پر یہ ہے جسے آج کل بڑے زور سے بیان کیا جاتا ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث ہے جس کے الفاظ مع مطلب یہ ہیں مالی اراکم رافعی ایدیکم کانھا اذناب خیل شمس (مسلم) رسول پاک نے صحابہؓ کو نماز میں ہاتھ اٹھاتے دیکھا تو فرمایا کیا سبب ہے کہ تم اس طرح ہاتھ اٹھاتے ہو گویا وہ مست گھوڑوں کی دمیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس حدیث سے رفعیدین کا نسخ ثابت ہوتا ہے کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے اندر ہاتھ اٹھانے سے منع فرمایا ہے تو ہر قسم کی رفعیدین جو نماز کے اندر ہو گی منع ہو گی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ روایت مجمل ہے مفصل خود اس شبہ کا جواب دیتی ہے چنانچہ جابر بن سمرہ کہتے ہیں صلیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فکنا اذا سلمنا قلنا بایدینا السلام علیکم فنظر الینا رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فقال ماشانکم تشیرون بایدیکم کانھا اذناب خیل شمس اذا سلم بعدکم فیلتفت الٰی صاحبهہ و لا یؤمی بیدہ (مسلم باب الامر بالسکون فی الصلٰوة) میں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو ہماری عادت تھی کہ جب ہم اخیر نمازکے سلام پھیرتے تو اپنے ہاتھوں سے اشارہ کر کے السلام علیکم کہا کرتے تھے آں حضرت نے ہمیں دیکھا تو فرمایا تمہیں کیا ہوا کہ ایسے اشارے کرتے ہو گویا مست گھوڑوں کی دمیں ہیں۔ جب کوئی سلام دیا کرے تو وہ اپنے ساتھی کی طرف دیکھا کرے اور اشارہ نہ کیا کرے۔‘‘
پس یہ مفصل روایت ہی کافی جواب دے رہی ہے کہ بات کچھ اور ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بے محل رفعیدین سے منع فرمایا ہے جو سلام کے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے نہ کہ عند الرکوع والی رفع یدین سے علاوہ اس کے نسخ میں تقدم تاخر قطعی ہونا چاہیے جو یہاں پرنہیں بھلا اگر یوں کہدے کہ یہ روایت (بشرطیکہ اس کو رفعیدین عند الرکوع سے تعلق ہو) خود ابن عمر کی روایت مذکورہ سے منسوخ ہے کیوں کہ ابن عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رفعیدین بعد انتقال آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی عمل کرتے رہے تو اس کا جواب شاید قائلین نسخ پر ہم سے زیادہ مشکل ہو آخیر میں ہم اپنے بھائیوں کو فخر المتاخرین استاد الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ کا اس مسئلہ میں فیصلہ سنا کر بحث ختم کرتے ہیں۔ شاہ صاحب نے فرمایا ہے وَالَّذِیْ یَرْفَعُ اَحَبُّ اِلَیَّ ِممَّنْ لَّا یَرْفَعُ فَاِنَّ اَحَادِیْثَ الرَّفْعِ اَکْثَرُوا ثَبَتُ (حجۃ اللہ البالعہ اذ کا روھیئات) یعنی جو لوگ رکوع کو جاتے ہوئے اور سر اٹھاتے ہوئے رفعیدین کرتے ہیں وہ نہ کرنے والوں سے مجھے زیادہ پیارے ہیں۔ چوں کہ رفع الیدین کی حدیثیں تعداد میں زیادہ ہیں اور ثبوت بھی پختہ۔ مزید بحث رفعیدین کی دیکھنی ہو تو رسالہ تنویر العینین‘‘ مصنفہ مولانا اسماعیل دہلوی یا ہمارا رسالہ آمین رفعیدین مطالعہ کریں۔

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 153۔156

محدث فتویٰ

تبصرے