سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(36) کیا رفع الیدین عندالرکوع و عندالسجودالراس از سنن مؤکدہ سے ہے یا نہیں

  • 2973
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1638

سوال

(36) کیا رفع الیدین عندالرکوع و عندالسجودالراس از سنن مؤکدہ سے ہے یا نہیں
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

چہ میفر ما یند عالمان دین و مفتیان شرع متین درین مسئلہ کہ رفع الیدین عند الرکوع و عند رفع الرأس منہ و عند القیام الرکعۃ الثالیۃ از سننء مؤکدہ است کہ تارکش معاتب و معاقب خواہد شد یا از سنن زوائد کہ فاعل آں مشاب باشد و تارکش ملام و معاتب نخواہد شد و ان ترک مدۃ عمرہ کما حقہ الشھید رحمہ اللہ فی رسالتہ تنویر العینین۔
ترجمہ: کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرح متین اس مسئلہ میں کہ وقت رکوع کرنے اور رکوع سے اٹھنے اور تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہونے کے رفع یدین کرنا ستنوں مؤکدہ سے ہے کہ جن کا تارک لائق عتاب اور عذاب کے ہو جاتا ہے یا سنتوں زائد سے ہے کہ جن کا کرنیوالا ثواب کے لائق ہوتا ہے اور تارک ان کا لائق ملامت اور عتاب کے نہیں ہوتا اگرچہ عمر ھر نہ کرے جیسا کہ شہید رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسالہ تنیور العینین میں بیان کیا ہے۔


 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حافظ ابن قیم در زاد المعاد نوشته من الاختلاف المباح الذی لا یعنف فیه من فعله و لا من ترکه و ھذا کرفع الیدین فی الصلٰوة و ترکه و کاالخلاف فی انواع التشھدات و انواع الاذان و الاقامة و انواع النسک من الافراد و القران و التمتع شیخ الاسلام ابن تیمیه اپنے رساله سنت الجمعه میں لکھتے ہیں فان السلف فعلوا ھذا و ھذا و کان کلا الفعلین مشھور بینھم کانوا یصلون علی الجنازة بقرأة کما کانوا یصلون تارة بالجھر بالبسملة و تارة بغیر جھر و تارة باستفتاح و تارة بغیر استفتاح و تارة برفع الیدین فی المواطن الثلاثة و تارۃ یقرؤن خلف الامام بالسر و تارة لایقرؤن و تارة یکبرون علی الجنازة سبعا و تارة حمسا و تارة اربعا کان فیھم من یفعل ھذا و فیھم من یفعل ھذا کل ھذا ثابت عن الصحابة کما ثبت عنھم ان فیھم من کان یرجع فی الاذان و فیھم من لم یرجع فیه و فیھم من یوتر الاقامة و فیھم من کان یشفعھا و کلاھما ثابت عن النبی صلی اللہ علیه وسلم شیخ الاسلام ابن تیمیہ۔
ترجمہ: حافظ ابن قیمؒ نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ قنوت کا مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ اور یہ اختلاف اختلاف مباح سے ہے اوس کے کرنے والے اور نہ کرنے والے پر کوئی ملامت نہیں ہے جیسے نماز میں رفع یدین کرنا اور نہ کرنا اور مانند اختلاف تشہد اور اذان اور اقمامت کے اور مانند اختلاف حج کے جو افراد اور قران اور تمتع ہے۔ سلف صالحین نے دونوں طرح کیا ہے۔ اور دونوں فعل ان میں مشہور اور معروف تھے۔ بعض سلف صالحین نماز جنازہ میں قرأت پڑھتے تھے اور بعض نہیں پڑھتے تھے جیسے کہ بسم اللہ کو نماز میں کبھی اونچے پڑھتے اور کبھی آہستہ دعاء افتتاح پڑھتے کبھی نہ پڑھتے اور کبھی رفع یدین رکوع کو جاتے اور اٹھتے اور تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے تینوں وقت کرتے کبھی نہ کرتے کبھی دونوں طرف سلام پھیرتے کبھی ایک طرف کبھی امام کے پیچھے قرأت پڑھتے کبھی نہ پڑھتے اور نماز جنازہ میں کیبھی سات تکبیریں کہتے کبھی پانچ کبھی چار سلف صالحین میں ہر طرح کے کرنے والے موجود تھے یہ سب اقسام اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے ثات ہیں چنانچہ بعض صحابہ کرام اذان میں ترجیح کرتے ھے بعض نہیں کرتے تھے بعض اقامت اکہری کہتے بعض دوہری اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں طرح ثابت ہے۔

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 151۔152

محدث فتویٰ

تبصرے