سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(31) کیا رفع سبابہ بین السجدتین ثابت ہے یا نہیں ۔

  • 2968
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1618

سوال

(31) کیا رفع سبابہ بین السجدتین ثابت ہے یا نہیں ۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دربارہ جواز رفع سبابہ ہر رکعت کے مابین السجدتین تحقیق کرتا ہوں چنانچہ اس حدیث سے جواز ثابت ہوتا ہے حدثنا عبد اللہ حدثنی ابی ثنا عبد الرزاق انا سفیان عن عاصم بن کلیب عن ابیه عن وائل بن حجر قال رأیت النبی صلی اللہ علیه وسلم کبر فرفع یدیه حین کبر یعنی استفتح الصلٰوة و رفع یدیه حین کب و رفع یدیه حین رکع و رفع یدیه حین قال سمع اللہ لمن حمدہ و سجد فوضع یدیه حذوا ذنیه ثم جلس فافترش رجله الیسری ثم وضع یدہ الیسریٰ علی رکبته ووضع زراعه الیمنی علی فخذہ الیمنی ثم اشار بالسبابة ووضع الابھام علی الوسطی و قبض سائر اصابعه ثم سجد الخ۔ ھکذا فی مسند امام احمد بن حنبل جلد ۴ ص ۳۱۷
ترجمہ: حدیث سنائی ہم کو عبد اللہ نے کہا حدیث سنائی مجھ کو باپ میرے نے کہا حدیث سنائی ہم کو عبد الرزاق نے کہا خبر دی ہم کو سفیان نے عاصم بن کلیب سے اس نے باپ اپنے سے اس نے وائل بن حجر سے کہ دیکھا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے شروع میں تکبیر اولیٰ پڑھتے وقت اور رکوع کرتے وقت اور سمع اللہ لمن حمدہ کہتے وقت رفع یدین کرتے دیکھا اور دیکھا کہ آپ نے سجدہ کیا اور دونوں ہاتھ کانوں کے برابر رکھے پھر بایاں پاؤں بچھا کر بیٹھ گگئے اور بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پر رکھا اور دائیں کو داہنی ران پر پھر انگوٹھے کے پاس کی انگلی سے اشارہ کیا اور انگوٹھے کو بیچ کی انگلی پر رکھا اور باقی سب انگلیوں کو بند کر لیا پھر (دوسرا) سجدہ کیا۔ مسند امام احمد بن حنبل کی چوتھی جلد ص ۳۱۷ میں بھی اسی طرح ہے۔
اس حدیث سے صاف مفہوم ہوتا ہے کہ رفع سبابہ ہر رکعت میں مابین السجدتین جائز ہے یہ حدیث صحیح الاسناد قابل عمل ہے یا نہیں بالتشریح و التصریح تحریر فرماویں اگر یہ حدیث صحیح متصل الاسنادگ ہے تو فہوا المرام اگر ضعیف ہے تو وجوہات ضعف تحریر فرماویں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اشارہ سبابہ بین السجدتین کی حدیث جو مسند امام احمد بن حنبل جلد ۴ صفحہ ۳۱۷ میں مروی ہے اس میں عاصم بن کلیب ایک راوی ہے جو اپنے باپ سے روایت کرتا ہے۔ میزان الاعتدال میں ہے۔ کان من العباد الاولیاء لکنہ مرجی وثقه یحیی بن معین و غیرہ و قال ابن المدنی لایحتج بما انفرد به
ترجمہ: عاصم بن کلیب ولیوں میں سے تھا لیکن مذہب مرجیہ کا رکھتا تھا۔ یحییٰ بن معین وغیرہ نے اس کی پختگی بیان کی ہے اور ابن مدینی نے کہا کہ جس حدیث کو وہ اکیلا ہی بیان کرے اس سے دلیل نہ پکڑی جاوے۔
اور تقریب میں لکھا ہے۔ صدوق من الثانیة اور خلاصہ میں لکھا ہے و قال الامام ابو دائود عاصم بن کلیب عن ابیه عن جدہ لیس بشئ
ترجمہ: سچا اور دوسرے درجہ کا آدمی ہے۔امام ابود ائود نے کہا کہ عاصم بن کلیب جو حدیث اپنے باپ کے واسطہ سے اپنے دادا سے روایت کرے، وہ لائق اعتبار نہیں ہے۔۱۲
الغرض عاصم بن کلیب مختلف فیہ ہے بعض اہل علم اس کو ثقہ کہتے ہیں اور بعض ضعیف اور بقاعدہ مسلمہ اصول حدیث الجرح مقدم علی التعدیل جس روایت کے ساتھ عاصم بن کلیب منفرد ہو جائے وہ لائق احتجاج کے نہیں ہے اور تعدیل کلیب کی ساتھ لفظ صدوق کے ہے اور یہ لفظ مرتبہ خامسہ سے ہے اور اہل مرتبہ خامسہ کے لائق احتجاج کے نہیں ہیں امعان النظر شرح نخبۃ الفکر میں ہے ثم الحکم فی اھل ھذہ المراتب الاحتجاج بالاربعة الاول منھا و اما التی بعدھا فانه لایحتج باحد من اھلھا لکون الفاظھا لا تشعر بجد شریطة الضبط بل یکتب حدیثه و یختبر
ترجمہ: امعان النظر میں بہت سے اہل مراتب کا بیان کر کے فرماتے ہیں) کہ حکم ان مرتبہ والوں کا یہ ہے۔ کہ ان میں سے پہلے چار کے ساتھ دلیل پکڑنی صحیح ہے اور ان چار کے بعد والوں میں کسی ایک کے ساتھ بھی دلیل نہیں پکڑی جا سکتی اس لیے کہ ان کے الفاظ شروط ضبط کی حد پر مشترک ہیں بلکہ ان کی حدیث لکھ کر اس میں تحقیق کی جاتی ہے۔
اور قرون خیر صحابہ کرام و تابعین و ائمہ اسلام سے بھی اس موقعہ پر اشارہ سبابہ ثابت نہیں ہے پس متروک العمل ہونا بھی اس حدیث کے ضعف کی دلیل ہے۔

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 147۔148

محدث فتویٰ

تبصرے