سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(26) آمین بالجہر علی الخصوص نماز جہری میں کیوں خاص کی گئی ہے۔

  • 2963
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1123

سوال

(26) آمین بالجہر علی الخصوص نماز جہری میں کیوں خاص کی گئی ہے۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آمین بالجہر علی الخصوص نماز جہری میں کیوں خاص کی گئی ہے آیا کسی محدیث صحیح مرفوع سے تخصیص صلوٰۃ جہری و نفی صلوٰۃ سری کی بصراحت تمام وارد ہے یا نہیں، اگر وارد ہے تو براہ مہربانی دونوں سوالوں کا جواب حدیث مرفوع متصل الاسناد سے مع روایات و اسامی کتب کے تحریر فرمایا جاوے، بدرجہ تنزل میں اس کی بھی اجازت دیتا ہوں کہ حدیث حسن یا ضعیف قابل عمل ہی سے لکھا جاوے، واضح رہے کہ آثار صحابہ سے استدلال نہیں چاہتا ہوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

احادیث سے صرف نماز جہری میں آمین بالجہر کہنا ثابت ہے اور نماز سرّی میں آمین بالجہر کہنا ثابت نہیں ہے اسی لیے آمین بالجہر نماز جہری کے ساتھ خاص کی گئی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
ھو الموافق
بے شک حدیث متفق علیہ مذکور سے صاف اور صریح طور پر مقتدیوں کے واسطے آمین بالجہر ثابت ہے امام بخاری نے مقتدی کے واسطے آمین بالجہر کے لیے باب بایں لفظ منعقد کیا ہے باب جھر الماموم بالتامین، اور اس باب میں اسی ابو ہریرہؓ کی حدیث مذکور کو ذکر کیا ہے۔ حافظ ابن حجر فتح الاری میں لکھتے ہیں قال الزبیر بن المنیر مناسبة الحدیث للترجمة من جھة ان فی الحدیث الامر بقول امین و القول اذا وقع به الخطاب مطلقا حمل علی الجھر و متی ارید بہ الاسرار او حدیث النفس قید بذلک و قال ابن رشید تؤخذ المناسبة منه من جھات منھا انه قال اذا قال الامام فقولوا فقابل القول بالقول و الامام انما قال ذلک جھرا فکان الظاھر الاتفاق فی الصفة و نھا انه قال فقولوا و لم یقیدہ بجھر و لا غیر و ھو مطلق فی سیاق الاثبات و قد عمل به فی الجھر بدلیل ما تقدم یعنی فی مسئله الامام و المطلق اذا عمل به فی صورة لم یکن حجة فی غر ما بالاتفاق و منھا انه تقدم ان الماموم مامور بالاقتداء بالامام و قد تقدم ان الاممام یجھر فلزم جھرہ بجھرہ و ھذا الاخیر سبق الیه ابن بطال و تعقب بانه یستلزم ان یجھر الماموم بالقرأة لان الامام جھر بھا لکن یمکن ان ینفصل عنه بان الجھر باقرأة خلف الامام قد نھی عنه فبقی التامین و اخلا تحت عموم الامر باتباع الامام و یتوی ذلک بما تقدم عن عطاء ان من خلف ابن الزبیر کانوا یؤمنون جھرا و روی البیہقی من وجه ان عطاء قال ادرکت مائتین من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فی ھذا المسجد اذا قال الامام و لا الضالین سمعت لھم رجة بامین و الجھر بالماموم ذھب الیه الشافعی فی القدیم و علیه الفتویٰ و قال الرافعی قال الاکثر فی المسئلة قولانا اصحھما انه یجھر انتھٰی۔ و اللہ العلم
ترجمہ: زین بن منیر کہتے ہیں کہ حدیث سے ترجمہ باب کی مناسبت کئی طرح سے ہے، حدیث میں آمین کہنے کا حکم ہے اور قول کے ساتھ جب خطاب مطلق واقع ہو، تو اسے جہر پر محمول کیا جاتا ہے اور اگر اس سے سر مراد ہو، تو اسے مقید طور پر بیان  کیا جاتا ہے، دوسرا یہ کہ آپ نے قال کے مقابلہ میں قولوا فرمایا ہے اور جب قول، قول کے مقابل ہو تو اس سے وہی کیفیت مراد ہوتی ہے۔ جو پہلے کی ہو، تو جب امام و لا الضالین بلند آواز سے کہے گا۔ تو آمین بھی بلند آواز سے ہو گی، تیسری یہ کہ قولوا کا لفظ مطلق واقع ہوا ہے اور اس پر جہر کی صورت میں عمل ہوا ہے تو مطلق پر جب ایک صورت میں عمل ہو جاوے تو وہ بالاتفاق دوسری صورت میں حجت نذہیں رہتا، چوتھی یہ کہ مقتدی کو امام کی اقتداء کا حکم ہے اور چوں کہ امام جہر سے قرأت کرتا ہے لہذا مقتدی بھی جہر سے آمین کہے گا۔ اس پر اعتراض یہ ہو سکتا ہے کہ امام قرأت جہر سے کرتا ہے اور مقتدی جہر سے نہی کرتا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرأت بلند آواز سے نص صریح سے بند ہو گئی، لیکن آمین چونکہ قرأت نہیں تھی۔ وہ اپنے حال پر باقی رہی اور اس سے پہلے سے گذر چکا ہے کہ ابن زبیر اور ان کے مقتدی بلند آواز سے آمین کہتے تھے عطاء کہتے ہیں کہ میں نے دو سو صحابہ کو اس مسجد میں بلند آواز سے آمین کہتے دیکھا ہے۔ مسجد کانپ جاتی تھی۔ امام شافعیؒ کے نزدیک مقتدی بلند آواز سے آمین کہے، رافعی کہتے ہیں کہ اکثر اس مسئلہ میں دو قول بیان کرتے ہیں ان سے زیادہ صحیح یہ ہے۔ کہ بلند آواز سے آمین کہے۔

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 143-145

محدث فتویٰ

تبصرے