سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(19) کیا سامع بھی قاری کی طرح قرآن کی آیات کا جواب دے سکتا ہے جس کے جواب دینے کا حکم آیا ہے ۔

  • 2956
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1434

سوال

(19) کیا سامع بھی قاری کی طرح قرآن کی آیات کا جواب دے سکتا ہے جس کے جواب دینے کا حکم آیا ہے ۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ عمرو کہتا ہے کہ آیت الیس اللہ باحکم الحاکمین اور سبح اسم ربک الاعلٰی اور فبای حدیث بعدہ یؤمنون وغیرہ آیات کا جواب جس طرح قاری کو دینا چاہیے، اسی طرح سامع کو بھی دینا چاہیے اور زید کہتا ہے کہ ان آیات کا جواب صرف قاری کو دینا چاہیے،پس ان دونوں میں سے کس کا قول حق و صواب ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 صورت مسئول عنہا میں عمرو کا قول اقرب الی الصواب ہے۔ یعنی آیات مذکورہ کا جواب جس طرح سے قاری کو دینا چاہیے، اسی طرح سے سامع کو بھی چاہیے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بوقت قرأت ان آیتوں کا جواب دینا ثابت ہے۔ اور آپ کا کل قول و فعل امت کے لیے ہر وقت دستور العمل ہے۔ تاوقتیکہ اس کی تخصیص کسی خاص وقت یا شخص خاص یا حالت خاص کے ساتھ ثابت نہ ہو۔ مثلاً رفع الیدین اور وضع الیدین علی الصدر اور رفع سبابہ فی التشہد اور جلسہ استراحت اور تورک اور قبل افتتاح قرأت کے اللہ اکبر کبیرا و الحمد للہ کثیرا و سبحان اللہ بکرة و اصیلا یا انی وجھت وجھی للذی فطر السمٰوٰت و الارض الخ یا اللھم باعد بینی و بین خطایای کما باعدت بین المشرق و المغرب الخ پڑھنا یا رکوع میں سبوح قدوس رب الملائکة و الروح اور سجدہ میں لک سجد وجھی و عظامی و ضحی پڑھنا وغیرہ ذلک یہ ایسے افعال ہیں جن کی مسنونیت میں کسی طرح کا شک نہیں ہو سکتا ہے اور امت محمدیہ میں سے ہر شخص کے لیے یہ افعال مسنون ہیں۔ خواہ وہ شخص امام ہو یا مقتدی خواہ منفرد ہو، حالاں کہ یہ کہیں ثابت نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسم نے اپنے مقتدیوں کو ان امور کی تعلیم فرمائی ہے۔ یا عام طرح پر فرمایا ہے کہ جو شخص جب نما ز پڑھے تو ایسا کرے، پھر بھی یہ احکام ہر شخص کے لیے اسی وجہ سے عام رہے، کہ قول و فعل پیغمبر صلی اللہ علیہ وسبلم تمام افراد امت کے لیے دستور العمل ہوتا ہے جب تک حدیث مرفوع ہی سے تخصیص ثابت نہ ہو قال اللہ تعالیٰ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة الاٰیة
ترجمہ: تمہارے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے۔
پس بنا پر تقریر ہذا ان آیات کا جواب دینا ہر شخص کو چاہیے، عام ازیں کہ قاری ہو یا سامع، نماز میں ہو یا غیر نماز میں، امام ہو یا مقتدی یا منفرد۔ اتباعا لفعل النبی صلی اللہ علیه وسلم کما رواہ ابوداؤد عن ابن عباس ان النبی صلی اللہ علیه وسلم کان اذا قرأ سبح اسم ربک الاعلیٰ قال سبحان ربی الاعلی و روی ایضا عن موسیٰ بن عائشة قال کان رجل یصلی فوق بنیه و کان اذا قرأ الیس ذلک بقادر علی ان یحیی الموتی قال سبحانک فبلی فسالوہ عن ذلک فقال سمعته من رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم و روی البیہقی عن علی انه قرأ نی الصبح بسبح اسم ربک الاعلٰی فقال سبحان ربی الاعلٰی الحدیث و روی ابو دائود عن عوف بن مالک الاشجعی قال قمت مع رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لیلة فقام فقرأ سورة البقرة لا یمر بایة رحمة الا وقف فسأل و لا یمر بایة عذاب الا وقف فتعوذ قال ثم رکع بقدر قیامه یقول فی رکوعه سبحان ذی الجبروت و الملکوت و الکبریاء و العظمة ثم سجد بقدر قیامه ثم قال فی سجودہ مثل ذلک ثم قام فقرأ بال عمران ثم قرأ سورة الحدیث و اخرجه مسلم و الترمذی و النسائی و ابن ماجه بنحوہ مختصرا او مطولا و روی الترمذی عن جابر قال خرج رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم علی اصحابه فقرأ علیہم سورة الرحمن من اولھا الٰی اٰخرھا فسکتوا فقال لقد قرأتھا علی الجن لیلة الجن فکانوا احسن مردودا منکم کنت کلما اتیت علی قوله فبای الاء ربکما تکذبان قالوا لا بشئ من نعمک ربنا نکذب فلک الحمد انتہٰی۔
ترجمہ:آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب سبح اسم ربک الاعلٰی پڑھتے تھے تو سبحان ربی الاعلٰی کہتے تھے۔ ایک آدمی اپنے مکان کی چھت پر نماز پڑھ رہا تھا۔ جب اس نے الیس ذلک بقادر علی ان یحیی الموتٰی پڑھا۔ تو کہا سبحانک فبلی، لوگوں نے اس بارے میں اس سے پوچھا، تو اس نے کہا، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو سنا ہے۔ بیہقی میں روایت ہے کہ آپ نے صبح کی نماز میں سبح اسم ربک الاعلٰی پڑھا، تو فرمایا سبحان ربی الاعلٰی، عوف بن مالک کہتے ہیں۔ کہ ایک رات آپ نے نماز میں سورۃ بقر شروع کی، جب آپ کوئی رحمت کی آیت پڑھتے تو ٹھہر جاتے اور خدا سے رحمت کا سوال کرتے اور جب عذاب کی آیت پڑھتے تو اس سے پناہ مانگتے، پھر آپ نے قیام کے برابر رکوع کیا اور اس میں سبحان ذی الجبروت و الملوکت و الکبریا و العظمة پڑھتے رہے۔ پھر سجدہ بھی قیام کے برابر کیا۔ اور اس می بھی رکوع والی دعا پڑھتے رہے۔ پھر آپ کھڑے ہوئے تو سورت آل عمران اور سورت پڑھی۔ جابر کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سورۃ الرحمن پڑھی وہ خاموشی سے سنتے رہے۔ آپ نے فرمایا! میں نے جنوں کی رات میں یہی سورۃ جنوں پر پڑھی تھی وہ تم سے جواب دینے میں اچھے رہے۔ جب بھی میں پڑھتا: فبای آلاء ربکما تکذبان تو وہ جواب دیتے! اے ہمارے رب ہم تیری کسی نعمت کا انکار نہیں کرتے، تیرے ہی لیے سب تعریفیں ہیں۔
اس حدیث ترمذی سے یہ امر بھی معلوم ہوا کہ اس قسم کی آیتوں کا جواب قاری یا مصلی کے اعتبار سے نہیں ہے۔ بلکہ خود اس کلام پاک کے معنی اور موقع کے لحاظ سے ہے۔ جب ہی تو آپ نے صحابہ کرام کے سکوت پر اعتراض فرمایا اور جنات کے جواب دینے کو مدحیہ طور پر ذکر فرمایا، حالاں کہ آپ نے اس واقعہ سے قبل صحابہ کرام کو اس جواب کی تعلیم نہیں فرمائی تھی۔ پس معلوم ہوا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جن جن آیتوں کا جواب دیا ہے۔ وہ اس خصوصیت سے نہیں کہ آپ امام تھے یا قاری تھے۔ بلکہ ان آیتوں کا معنی اور موقعہ ہی ایسا تھا کہ جب وہ آیت پڑھی جاے تو پڑھنے والا اور سننے والا ہر شخص ان کا مناسب جواب جو احادیث سے ثابت ہو دیوے۔
قال المناوی فی شرح الجامع الصغیر کان اذا قرأ قولہ تعالیٰ الیس ذلک بقادر علی ان یحیی الموتی قال بلٰی و اذا قرأ الیس اللہ باحکم الحاکمین  قال بلٰی لان قولہ بمنزلة سوال فیحتاج الی الجواب و من حق الخطاب ان لا یترک المخاطب جوابه فیکون السامع کھیئة الغافل او کمن لا یسمع ندبوا لمن مر بایة رحمة ان یسأل اللہ الرحمة  او عذاب ان یتعوذ من النار او یذکر الجنة بان یرغب الی اللہ فیھا او النار ان یستعیذ به منہا انتہٰی ثم قال اذا قرأ سبح اسم ربک الاعلی سبحان ربی الاعلی کما سمعته فیما قبله و اخذ من ذلک ان للقاری او السامع کلما مر بایة تنزیة ان ینزہ اللہ او تحمید ان یحمدہ او تکبیر ان یکبیرہ و قس علیه انتہی اور شرح صحیح مسلم للنوی میں ہے: اذا مر بایة فیھا تسبیح سبح و اذا مر بسوال سأل و اذا مر بتعوذ تعوذ فیه استحباب ھذہ الامور لکل قارئ فی الصلٰوة او غیرھا و مذھبنا استحبابہ للامام و الماموم و المنفرد۔ انتہی و ھکذا فی کتاب الاذکار للنووی۔ و اللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
جب اللہ تعالیٰ کا یہ قول الیس ذلک بقادر علیٰ ان یحیی الموتے پڑھے۔ تو کہے بلیٰ، اور جب الیس اللہ باحکم الحاکمین پڑھے و بلیٰ کہے، کیوں کہ ان میں سوال کیا گیا ہے۔ جس کا جواب دینا چاہیے اور خطاب کا حق ہے۔ کہ مخاطب کلام کا جواب دیقا۔ اگر نہ دے گا تو سامع بے خبروں کی طرح ہو گا۔ یا جیسے کوئی جانورخ جو آواز تو سنتا ہے، لیکن مطلب نہیں سمجھتا، یا کسی اندھے، گونگے، بہرے کی طرح، جیسے کچھ سمجھ نہ آئے۔ یہ حالت تو بہت بُری حالت ہے۔ پھر مستحب ہے کہ رحمت کی آیت سے گذرے، تو رحمت کا سوال کرے۔ عذاب کی آیت سی گزرے تو پناہ مانگی جنت کا تذکرہ ہو تو اس کا سوال کرے۔ دوزخ کا ذکر ہو تو پناہ مانگے۔ اگر تنزیہ کی آیت ہو، تو اللہ کی پاکیزگی بیان کرے۔ تعریف کی آیت ہو، تو اللہ کی تعریف کرے، علٰی ہذا القیاس جب تسبیح کی آیت سے گذرے تو تسبیح بیان کرے۔ جب سوال کا ذکر ہو، توسوال کرے اور جب تعوذ سے گذرے تو پناہ مانگے نماز میں قاری کے لیے یہ سب امور مستحب ہیں۔ اور ہم اسے امام اور مقتدی، منفرد سب کے لیے مستحب جانتے ہیں۔

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 131۔134

محدث فتویٰ

تبصرے