سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(10) سورہ فاتحہ کا امام کے پیچھے پڑھنا کیسا ہے ۔

  • 2947
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2031

سوال

(10) سورہ فاتحہ کا امام کے پیچھے پڑھنا کیسا ہے ۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سورۃ فاتحہ کا امام کے پیچھے پڑھنا کیسا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 قرأۃ فاتحہ خلف الامام کو کتب فقیہہ میں احتیاطاً مستحسن لکھا ہے چنانچہ مجتبیٰ شرح قدوری میں ہے، فی شرح الکافی للبزوری ان القرأة خلف الامام علی سبیل الاحتیاط حسن عند محمد و مکروہ عندھما و عن ابی حنیفة رحمه اللہ انه لا باس بان یقرأ الفاتحة فی الظھر و العصر و بما شاء من القراٰن الخ (بزودی کی شرح کافی میں یہ ہے کہ پڑھنا سورئہ فاتحہ کا پیچھے امام کے احتیاطاً حسن ہے نزدیک امام محمد کے اور مکروہ ہے۔ امام ابو حنیفہ اور ابو یوسف کے نزدیک اور روایت ہے ابو حنیفہؒ سے یہ کہ نہیں مضائقہ ہے۔ اس میں کہ پڑھے سورئہ فاتحہ ظہر اور عصر میں اور جو کچھ چاہے قرآن سے الخ) اور بنا یہ شرح ہدایہ میں ہے: و یستحسن ای قرأة المقتدی الفاتحة احتیاطاً و رفعا للخلاف فیما روی بعض المشائخ عن محمد رحمه اللہ و فی الذخیرة لو قرأ المقتدی خلف الامام فی صلٰوة لا یجھر فیھا اختلف المشائخ فیه فقال ابو حفض و بعض مشائخنا لا یکرہ فی قول محمد و اطلق المصنف کلامه وومرادہ فی حالة المخافته دون الجھر و فی شرح الجامع للامام رکن الدین علی السعدی عن بعض مشائخنا ان الامام لا یحتمل القرأ عن المقتدی فی صلٰوة المخافتة (اور مستسحن یعنی پڑھنا مقتدی کو سورۃ فاتحہ احتیاطاً اور واسطے دور کرنے خلاف کے اس میں کہ روایت کیا ہے بعض مشائخ نے محمدؒ سے۔ اور ذخیرہ میں ہے کہ اگر پڑھے مقتدی پیچھے امام کے اس نماز میں جس میں جہر نہیں کیا جاتا ہے۔ اتلاف کیا مشائخ نے بیچ اس کے پس کہا ابو حفص اور مشائخ نے ہمارے نہیں مکروہ ہے بیچ قول محمد کے اور مطلق ذکر کیا مصنف نے کلام کو ان کے اور مراد ان کی حالت قرأت سری میں ہے نہ جہری میں۔ اور امام رکن الدین علی سعدی کی شرح جامع میں ہے کہ ہمارے بعض مشائخ سے مروی ہے کہ نماز سری میں امام مقتدی کی قرأت کو اس کی طرف سے ادا نہیں کر سکتا۔) اور ہدایہ میں ہے و یستحسن سبیل الاحتیاط فیما یروی عن محمد رحمه اللہ  اور احتیاط کی نظر سے پڑھنا مستحسن ہے بموجب اس قول کے جو امام محمدؒ سے مروی ہے۔ اور عینی نے شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے و بعض مشائخنا یستحسنون ذٰلک علی سبیل الاحتیاط فی جمیع الصلٰوة و بعضھم فی السّرّیة فقط و علیه فقھاء الحجاز و الشام (یعنی بعض مشائخ ہمارے مستحسن سمجھتے ہیں پیچھے امام کے سورۃ فاتحہ پڑھتے کو ازراہ احتیاط کے سب نمازوں میں سے اور بعض مشائخ نماز آہستہ والی میں اور اسی پر ہیں فقہاء حجاز و شام کے الخ) اور ملا علی قاریؒ نے شرح مشکوٰۃ میں لکھا ہے الامام محمد من ائمتنا یوافق الشافعی فی القرأة خلف الامام فی السریة  امام محمد ہمارے اماموں سے موافقت کرتے ہیں امام شافعی کی بیچ پڑھنے سورئہ فاتحہ کے پیچھے امام کے نماز سرّیہ میں) اور عبد الوہاب شعرانیؒ نے میزان الکبریٰ میں لکھا ہے لابی حنیفة و محمد رحمہا اللہ قولان احدھما عدم وجوبھا علی الماموم و لا یستن هله و ھذا قولھما القدیم و ادخله محمد فی تصانیفه القدیمة و اشتھرت النسخ الی الاطراف و ثانیھا استحسانھا علی سبیل الاحتیاط و عدم کراھتھا عند المخافة للحدیث المرفوع لاتفعلوا بام القراٰن و فی روایة لاتقرؤا بشئ اذا جھرت بام القراٰن و قال عطاء کانوا یرون علی الماموم القرأة فیما یجھر فیه الامام و فیما یسر فرجھا من قولھما الاول الی الثانی احتیاطاً  (امام ابو حنیفہؒ و محمد کے دو قول ہیں پہلا نہ واجب ہونا قرأت کا اوپر مقتدی کے اور نہ مسنون ہونا واسطے اس کے اور یہ قول قدیم ہے اور دونوں کا اور داخل کیا اس کو محمدؒ نے اپنی تصانیف قدیمہ میں اور مشتہر ہوئے نسخے اطراف میں، دوسرا مستحسن ہونا قرأۃ فاتحہ کا ازراہ احتیاط کے اور نہ مکروہ ہونا وقت آہستہ پڑھنے کے بسبب حدیث مرفوع کے کہ نہ کرو قرأت مگر ساتھ سورئہ فاتحہ کے اور ایک روایت میں ہے نہ پڑھو کچھ جس وقت بآواز پڑھوں میں قرأت مگر سورۃ فاتحہ اور کہا عطاء نے تھے یعنی صحابی قائل اس بات کے کہ مقتدی قرأۃ کرے اس نماز میں کہ بآواز بلند پڑھتا ہے امام اور اس میں کہ آہستہ پڑھتا ہے۔ پس رجوع کیا دونوں نے یعنی ابو حنیفہ اور محمدؒ نے اپنے قول اول سے طرف قول ثانی کے احتیاطاً الخ اور ملاّ جیونؒ نے تفسیر احمدی میں تحریر کیا ہے فان رایت الطائفة الصوفیة و المشائخین الحنفیة تراھم یستحسنون قرأة الفاتحة للمؤتم کما استحسنه محمد ایضاً احتیاطاً
ترجمہ: پس اگر دیکھئے تو گروہ صوفہ اور مشائخین حنفیہ کو دیکھئے گا تو ان کو کہ اچھا جانتے ہیں پڑھنا سورئہ فاتحہ کا واسطے مقتدی کے جیسا کہ مستحسن جانا سورئہ فاتحہ پڑھنے کو امام محمدؒ نے بھی از روئے احتیاط کے۔
اور حضرت شاہ شیخ فرید الدین بہاری قدس سرہ کے ملفوظات مسمی بخوان پر نعمت میں ہے۔ از اینجا باز بیچارہ عرضد اشت کہ قرأت فاتحہ خلف الامام مقتدی را وعید است آنجاچہ کند فرمو فاتحہ بکند و مشائخ ہم میخوانند الخ ابجد العلوم میں تحت ترجمہ حضرت میر زا مظہر جانجانان رحمہ اللہ تعالیٰ کے لکھا ہے و یقوی قرأۃ الفاتحۃ خلف الامام عمدۃ الرعایہ ترجمہ:قوت دیتے تھے پڑھنے سورئہ فاتحہ کو پیچھے امام کے۔ میں مولانا محمد عبد الحیٌ لکھنوی مغفور تحریر فرماتے ہیں و منھم من تفوہ بفساد صلٰوة المقتدی بھا و ھو قول شاذ مردود و روی عن محمدؒ انه استحسن قرأة الفاتحة للموتم فی السریة و روی مثله عن حنیفة صرح به فی الھدایة و المجتبیٰ شرح مختصر القدوری و غیرہ ھما و ھذا ھو مختار کثیر من مشائخنا و علی ھذا فلا یستنکر استسحانھا فی الجھریة ایضاً اثناء سکتات الامام بشرط بان لا یخل سماع الخ فتاوی مفید الاحناف ۵
ترجمہ: اور بعض فقہاء میں وہ شخص ہے کہ بکواس کی ہے اس نے ساتھ فاسد ہونے نماز مقتدی کے بسبب قرأۃ فاتحہ کے اور یہ قول شاذ و مردود ہے۔ اور روایت کیا گیا ہے امام محمد سے یہ کہ مستحسن جانا ہے انہوں نے پڑھنا سورئہ فاتحہ کا واسطے مقتدی کے نماز آہستہ میں اور روایت کیا گیا ہے مثل اس کے امام ابو حنیفہؒ سے، تصریح اس کی ہدایہ و مجتبیٰ شرح مختصر قدوری میں گاور یہ مختیار ہے نزدیک اکثر مشائخ ہمارے کے اور بنا بر اس کے پس نہیں انکار کیا جا سکتا مستحسن ہونا فاتحہ کا پڑھنا نماز جہریہ میں بھی درمیان سکتات امام کے بشرطیکہ مخل نہ ہو سننے میں۱۲

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 117۔119

محدث فتویٰ

تبصرے