سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(03) کیا رسول اللہ ﷺ نے فرضوں کی جماعت میں سورة فاتحہ کا تکرار کیا ہے ۔

  • 2940
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1301

سوال

(03) کیا رسول اللہ ﷺ نے فرضوں کی جماعت میں سورة فاتحہ کا تکرار کیا ہے ۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرضوں کی باجماعت نماز میں سورۃ فاتحہ کا تکرار فرمایا ہے یعنی آپ نے مدینہ منورہ میں تقریبا ۲۶۰۰۰ مرتبہ سورۃ فاتحہ بلند آواز سے پڑھائی، اس عرصہ میں کیا آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فاتحہ کی کسی آیت کا تکرار فرمایا۔ واقعات ہمارے ہاں ایک مولوی صاحب سورۃ فاتحہ کا تکرار فرما رہے ہیں اور دلیل کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد میں سورۃ مائدہ کے آخری رکوع کی آیات کا تکرار بطور ثبوت پیش کرتے ہیں۔ دیگر خلیفہ سوم کی نماز صبح کو سورۃ یوسف کی آیات کا تکرار بطور ثبوت پیش کرتے ہیں۔ متحرم! ہمارا سوال صرف سورۃ فاتحہ کا ہے اور وہ بھی با جماعت۔ دلیل نمبر ۱ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تہجد میں سورۃ فاتحہ کا تکرار فرمایا اور وہ بھی ایسی صورت میں کہ آپ با جماعت نماز ادا نہیں فرما رہے تھے۔ دلیل نمبر۲ میں حضرت عثمان نے بھی صورہ یوسف کی آیات کا تکرار فرمایا نہ کہ سورۃ فاتحہ کا۔
ایک صحابی کا فعل اگر بطور دلیل مان لیا جائے جس سے یہ بھی ثابث نہ ہوتا کہ حضرت محمد صلی ٓٓ اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا یا فرمایا تو پھر سخت مشکل پیش آئے گی، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رفع الیدین یا سورۃ فاتحہ وغیرہ وغیرہ۔ محترم ! صرف اسوۃ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دلیل مطلوب ہے آیا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 بسم اللہ الرحمن الرحیم: تکرار کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ انسان عام طور پر تکرار کو مسنون سمجھے اور اس بنا پر تکرار کرے تو یہ بدعت ہے اور تعامل نبویؐ اور سلف کے خلاف ہے اور ایک  یہ ہے۔ کہ اتفاقی طور پر انسان کے دل پر رقّت پیدا ہو جائے اور بار بار پڑھنے سے لذت آئے تو ایسے اتفاقی تکرار میں کوئی حرج نہیں ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تہجد میں یا کسی صحابی کا تکرار اسی بنا پر ہے۔ رہا فاتحہ کا فرق۔ سو یہ بے دلیل ہے کیوں کہ جو جواز کی وجہ ہے وہ دونوں میں موجود ہے خواہ فاتحہ ہو یا غیر فاتحہ۔

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 108

محدث فتویٰ

تبصرے