سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(02) نماز میں قرأت کے وقت امام بھول جائے تو اس کو لقمہ دینا جائز ہے یا نہیں

  • 2939
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 5078

سوال

(02) نماز میں قرأت کے وقت امام بھول جائے تو اس کو لقمہ دینا جائز ہے یا نہیں
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز میں قرأت کے وقت اام بھول جائے تو اس کو لقمہ دینا جائز ہے یا نہیں؟ اور کیا لقمہ وہی شخص دے سکتا ہے جو امام کے ساتھ نماز میں شامل ہے، یا جماعت سے باہر والا بھی لقمہ دے سکتا ہے؟
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر کوئی شخص باہر سے لقمہ دے تو سب کی نماز فاسد ہو جائے گی، کیا یہ خیال درست ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ فتویٰ ’’تنظیم اہلحدیث‘‘ جلد ۱۳ شمارہ ۳۷، ۲۱ اپریل ۱۹۶۱ئ؁ میں تفصیلا شائع ہو چکا ہے، کہ نماز میں امام کو لقمہ دینا جائز ہے، دو احادیث ذیل میں درج کی جاتی ہیں۔ اول ابودائود مع عون المعبود جلد ص ۳۴۱ باب الفتح علی الامام فی الصلوٰة میں حدیث ہے۔ عن یحیی الکاھلی عن المسور ٓٓبن یزید المالکی ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال یحیی ربما قال شھدت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یقرأ فی الصلوٰة فترک شیئا لم یقرأ فقال له رجل یا رسول اللہ ترکت اٰیة کذا و کذا فقال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ھلا ذکرتیتھا؟ یعنی مسور بن یزیدؓ مالکی سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نماز میں قرأت فرما رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درمیان سے کچھ چھوڑ دیا۔ نماز کے بعد ایک آدمی نے کہا، یا رسول اللہ! آپ نے فلاں فلاں آیت چھوڑ دی اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو فرمایا کہ تم نے کیوں نہ یاد دلا دیا۔‘‘؟ دوم عن عبد اللہ بن عمر ان النبی صلی اللہ علیه وسلم صلّٰی صلٰوة فقرأ فیھا فلبس علیه فلما انصرف قال ابی اصلیت معنا قال نعم قال فما منعک۔ عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ نماز پڑھا رہے تھے آپ صلی اللہ پر قرأت مشتبہ یعنی بھول گئے یا آگے پٓٓیچھے ہو گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت ابی بن کعب (حافظ قرآن) کو فرمایا کہ تم نے میرے ساتھ نماز پڑھی ہے؟ جواب دیا ہاں! (آپ صلی اللہ علیہ وسلم)نے فرمایا تم نے مجھ کو لقمہ کیوں نہ دیا، کس چیز نے تجھے منع کیا؟ صاحب عون المعبود فرماتے ہیں و الحدیثان یدلان علی مشروعیة الفتح بان یکون علٰی امام لم یؤد الواجب من القرأة و باخر رکعة مما لا دلیل علیه یعنی دونوں حدیثیں جواز لقمہ پر دلالت کرتی ہیں اور جواز لقمہ کو مقید کرنا اس شرظ کے ساتھ کہ جب امام بقدر واجب من القرأۃ بھول گیا ہو اور رکعت آخری ہو، یہ قول بلا دلیل ہے۔ پھر صاحب عون المعبود فرماتے ہیں۔ و الادلة قد دلت علی مشروعة الفتح مطلقاً فعند نسیان الامام الایة فی القرأة الجھریة یکون الفتح علیه بتذکیرہ تلک الایة کما فی الحدیث الباب و عند نسیانه لغیرھا من الارکان یکون الفتح بالتسبیح للرجال و التصفیق للنساء یعنی احادیث سے جواز لقمہ مطلقاً ثابت ہوتا ہے خواہ بقدر واجب من القرأۃ میں بھولے یا زیادہ میں اور فتح کی دو صورتیں ہیں۔ نمبر۱ ایک جہری نماز میں اگر امام بھول جائے تو مقتدی خواہ مرد ہو یا عورت، امام کو بھولی ہوئی آت بتلا دے نمبر۲  اگر قرأت کے علاوہ سجدہ یا قعدہ وغیرہ بھول جائے تو مقتدی مرد امام کو اطلاع دینے کے لیے سبحان اللہ کہے اور عورت اطلاع دینے کے لیے تالی بجائے یعنی ایک ہاتھ پر رکھ کر دوسرا ہاتھ مارے۔
احناف کا یہ کہنا کہ امام اگر بھول جائے تو اس کو لقمہ نہ دیا جائے، صرف سجدہ سہو کرنا کافی ہے اس کی دلیل کتب فقہ میں کہیں نہیں ہے یہ ان کا زبانی قول بلا دلیل مردود ہی کتب فقہ اس کے خلاف ہیں۔ ذیل میں چند حوالجات درج کئے جاتے ہیں۔ (نمبر۱) شرح وقایہ جلد اول ص ۱۵۴ مطبع یوسفی باب ما یفسد الصلٰوة و ما یکرہ فیھا و فتحه علی غیر امامه قال بعض المشائخ اذا قرأ امامه مقدار ما یجوز به الصلوة اذا انتفل الٰی زینة اخری ففتح تفسد صلوة الفاتح و ان اخذ الامام منه تفسد صلٰوة الامام ایضاً و بعضھم قالوا لاتفسد فی شئ من ذالک و سمعت ان القول علی ذالک۔ یعنی نمازی اگر غیر امام کو لقمہ دے تو نماز فاسد ہو جائے گی، اگر نمازی اپنے امام کو لقمہ دے تو جائز ہے نماز فاسد نہ ہو گی بعض مشائخ کا قول ہے کہ امام اگر تین آیتیں پڑھ کر بھول گیا، یا دوسری آیت شروع کر دی اس صورت میں لقمہ دینے والی کی نماز فاسد ہو جائے گی، اگر امام نے لقمہ لیا تو امام کی نماز بھی فاسد ہو جائے گی اور بعض فقہاء نے کہا کہ کسی کی بھی نماز فاسد نہ ہو گی۔
عبد اللہ بن مسعود تاج الشریعۃ صاحب شرح و قایہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے استادوں اور مشائخوں سے سنا ہے کہ فتویٰ اسی آخری قول (کسی کی بھی فاسد نہ ہو گی) پر ہے۔ شرح وقایہ کے حاشیہ پر مولانا عبد الحئ حنفی محشی نے بھی ابودائود کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے۔ کہ لقمہ دینا جائز ہے۔ نمبر۲ ہدایہ مع نہایہ جلد الو ص ۷۳ مطبوعہ احمد میں ہے۔ و ان فتح علٰی امام لم یکن کلاماً یعنی اگر امام کو لقمہ دیا جائے تو وہ کلام میں شمار نہیں، جس سے نماز فاسد ہو جائے۔‘‘ اس عبارت کی شرح میں لکھا ہے کہ قوله و ان فتح علٰی امامه لم یکن کلاماً و اطلاق ھذا دلیل علٰی ان ما اذا قرأ الامام مقدار ما یجوز به الصلٰوة و باذا ما لم یقرأ لا تفسد صلٰوة الفاتح و لا صلٰوة الامام بالاخذ۔ ’’یعنی شارح کہتے ہیں کہ مصنف کا کلام ہے۔ مطلق اور یہ مطلق اس بات کی دلیل ہے کہ خواہ امام مقدار ما یجوز بہ الصلوٰۃ کے پڑھنے کے بعد یا اس سے کم میں بھولے ہر دو صورت میں اگر مقتدی لقمہ دے اور امام لقمہ قبول کر لے، نہ تو امام کی نماز فاسد ہو گی، نہ مقتدی کی اور جو شخص نماز میں شریک نہیں وہ بھی لقمہ دے سکتا ہے۔ چنانچہ بخاری شریف میں ہے۔ عن البراء بن عازبؓ ان النبی صلی اللہ علیه وسلم کان اول ما قدم المدینة نزل علی اجدادہ او قال اخواله و انه صلی قبل بیت المقدس ستة عشر شھراً و کان یعجبه ان یکون قبلته قبل البیت و انه صلی اول صلٰوة صلاھا صلٰوة العصر و صلی معه قوم فخرج رجل ممن صلی معه فمر علی اھل مسجد و ھم راکعون فقال اشھد باللہ لقد صلیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قبل البیت۔ (بخاری ج ۱ باب الصلٰوۃ من الایمان ص ۱۱۰۱) براء بن عازبؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے مدینہ میں تشریف لائے تو انصار سے اپنے ننھال یا ماموئوں میں اترے اور سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے، اور بیت اللہ کی طرف منہ کرنا آپؐ کو پسند تھا۔ پہلی نماز جو بیت اللہ کی طرف منہ کر کے پڑھی وہ نماز عصر ہے اور آپ کے ساتھ ایک جماعت نے نماز پڑھی ان میں سے ایک آدمی بعد فراغت نماز نکلا اور ایک مسجد والوں کے پاس سے گذرا، وہ رکوع کی حالت میں تھے، اس نے کہا میں خدا کے نام کے ساتھ گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیت اللہ کی طرف نماز پڑھی ہے۔ مسجد والے رکوع ہی کی حالت میں بیت اللہ کی طرف پھر گئے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا، لقمہ دینے کے لیے داخل نماز ہونے کی شرط باطل ہے، جو شخص نماز میں شامل نہ ہو، لقمہ دے سکتا ہے۔ اسی کے قریب ایک حدیث بخاری جلد اول باب ما جاء فی القبلۃ الخ میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے اور مسلم میں بھی ہے۔ اس پر فتح الباری میں لکھا ہے۔ و فیه جواز تعلیم من لیس فی الصلوٰة لا یفید صلٰوته (فتح الباری ج ۲ ص ۲۵۲) یعنی اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غیر نمازی کا نمازی کو تعلیم دینا جائز ہے اور نمازی کا غیر نمازی کے کلام کو سننا (اور اس پر عمل کرنا) اس کی نماز کو فاسد نہیں کرتا۔‘‘ اور جب دوسری باتوں میں باہر کا لقمہ صحیح ہوا تو قرأۃ قرآن مجید میں بطریق اولیٰ صحیح ہو گا اور اسی حدیث کی بنا پر ہدایہ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی غلطی سے کسی دوسری طرف نماز پڑھ رہا ہو اور اس حال میں اس کو کوئی شخص غلطی پر متنبہ کرتا ہوا قبلہ کا پتہ دے دے تو اس کو نماز ہی میں فوراً قبلہ کی طرف پھر جانا چاہیے چنانچہ اصل عبارت ہدایہ کی یہ ہے۔ و ان علم ذالک فی الصلٰوة استدار الی القبلة لان اھل قباء لما سمعوا بتحول القبلة استداروا الی القبلة لان اھل قباء لما سمعوا بتحول القبلة استداروا کھیئتھم فی الصلٰوة (ھدایۃ باب شروط الصلٰوۃ ص ۸۳) یعنی اگر نماز میں قبلہ کا علم ہو جائے تو قبلہ کی طرف پھر جائے کیوں کہ اہل قباء نے جب سنا کہ قبلہ بیت اللہ ہو گیا ہے تو نماز ہی میں فوراً پھر گیا۔‘‘ حاشیہ ہدایہ میں اسی مقام پر لکھا ہے: قوله لان اھل قباء الخ اخرجه البخاری و مسلم عن مالک عن عبد اللہ بن دینار عن عبد اللہ بن عمر قال بینھما الناس فی صلٰوة الصبح بقباء اذ جاء ھم فقال ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قد انزل علیه اللیلة قراٰن و قد امر ان یستقبل القبلة فاستقبلوھا و کانت وجوھم الی الشام فاستدارو الی الکعبة انتھٰی۱۲ (تخریج زیلعی ج ۱ ص ۳۵۰) یعنی بخاری و مسلم میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ٓروایت ہے کہ لوگ مسجد قبا میں نماز صبح پڑھ رہے تھے اس حال میں ان کے پاس ایک شخص آیا، پس کہا، آج رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوا اور آپ کو بیتٓ اللہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا پس وہ فوراً بیت اللہ کی طرف پھر گئے اور ان کے منہ شام کی طرف ہو گئے۔‘‘
اس بنا پر اگر امام مثلاً سجدہ سے سر اٹھائے اور کسی مقتدی کو پتہ نہ لگے کہ امام نے سر اٹھا لیا ہے وہ بدستور سجدہ میں پڑا رہا ہے اس وقت کسی شخص نے اس کو غلطی پر متنبہ کرتے ہوئے اطلاع دے دی اور اس پر اس نے سر اٹھا لیا تو اس کی نماز فاسد نہ ہونی چاہیے۔ خاص کر جب اللہ اکبر کہہ کر متنبہ کرے، تو اور اچھا ہے، تاکہ اسی ذکر سے آگاہ ہو جائے جس سے امام نے آگاہ کرنا تھا۔ دیکھئے کیسی صفائی ثابت ہو گیا کہ لقمہ دینے کے لیے داخل نماز ہونے کی شرط صحیح نہیں ہے۔

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 104۔108

محدث فتویٰ

تبصرے