سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(105) کیا امام کا قرآنی ترتیب کے خلاف قراة پڑھنا درست ہے نہیں ۔

  • 2937
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1150

سوال

(105) کیا امام کا قرآنی ترتیب کے خلاف قراة پڑھنا درست ہے نہیں ۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ امام کاخلافِ ترتیب قرآن پڑھنا تقدیم تاخیر سے درست ہے یا نہیں؟ اور فرض نماز میں کبھی ایک مرتبہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اثنائے سورتوں متفرق رکوعات پڑھنا ثابت ہے۔ یا نہیں؟ اگر نہیں ہے تو پھر آج کل پوری سورتیں نہ پڑھنا اور صرف درمیان سورت سے یا اول آخر سور سے پڑھنا بدعت ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام کا موجودہ ترتیبِ قرآنی کے خلاف تقدیم و تاخیر سے پڑھنا یا اثنائے سورتوں سے متفرق رکوعات کا پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و صحابہ کرامؓ سے ثابت ہے۔ (ملاحظہ ہو بخاری جلد اول ص ۱۰۶، ۱۰۷ باب الجمع بین السورتین فی رکعة و القرأة باشلخواتیم و بسورة قبل سورة و باول سورة۔ یعنی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب باندھا ہے۔ کہ دو سورتیں ایک رکعت میں، یا سورتوں کی آخعیر کی ایتیں، یا موجودہ ترتیب کے خلاف سورتوں کا پڑھنا، یا سورتوں کی پہلی آیتوں کا پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ اب ذیل کے دلائل سے یہ ثابت کرنا چاہیے کہ جائز ہے ملاحظہ ہو۔ حضرت انسؓ کی حدیث عن انس کان رجل من الانصار کان یؤمھم فی مسجد قبائ۔ اہلحدیث ترجمہ انسؓ فرماتے ہیں کہ ایک انصاری مسجد قباء میں امامت کراتا۔ سورۃ فاتحہ کے بعد پہلے قل ہو اللہ احد پڑھتا۔ بعدہ کوئی سورۃ ملاتا۔ اس پر اس کی قوم ناراض ہو کر اسے کہنے لگی۔ تم قل ہو اللہ احد پر اکتفا نہیں کرتے۔ بلکہ ایک سورت ملاتے ہو یہ ٹھیک نہیں، یا تو صرف قل ھو اللہ احد پڑھا کرو یا قل هو اللہ احد پڑھنا چھوڑ دو، کوئی دوسری سورت پڑھا کرو، امام نے جواب دیا کہ یہ ناممکن ہے تمہاری مرضی ہو تو امامت کرائوں، ورنہ چھوڑ دوں۔ قوم مجبور تھی، کیونکہ ان میں افضل یہیں تھا۔ جب اس قوم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو لوگوں نے اپنے امام کی حالت بیان کی، آپؐ نے فرمایا تو اپنے مقتدیوں کی بات کیوں نہیں سنتا۔ اور تو نے ہر رکعت میں اس صورت کو اپنے اپور کیوں لازم کر لیا ہے۔ جواب دیا کہ یا رسول اللہ میں اس صورت کو دوست رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا تیری یہ دوستی تجھ کو جنت میں داخل کرے گی۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود کی حدیث۔ حدثنا اٰدم قال حدثنا شعبة قال حدثنا عمر بن مرة قال سمعت ابا وائل قال جاء رجل الٰی ابن مسعود فقال قرأت المفصل اللیلة فی رکعة فقال ھذا کھذا الشعر عرفت النظائر التی کان النبی صلی اللہ علیه وسلم یقرن بینھن فذکر عشرین سورة من المفصل سورتین فی کل رکعة: حدیث بیان کی آدم نے شعبہ سے اس نے عمر بن مرہ کہا عمر بن مرہ نے، سنا میں نے ابو وائل سے وہ کہتے تھے کہ ایک آدمی حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے پاس آ کر کہنے لگا۔ کہ میں نے آج کی رات ایک رکعت میں مفصل سورتیں پڑھی ہیں اس پر حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ یہ پڑھنا تیرا جلدی جلدی مثل شعر گوئی کے ہو گا۔ پھر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مفصل کی دو سورتیں ایک رکعت میں پڑھتے تھے اور میں ان صورتوں کو جانتا ہوں۔
سورتوں کی تعیین ابو دائود جلد الو ص ۲۰۴ مجتبائی میں مذکور ہے ملاحظہ ہو عن علقمة و الاسود قالا اتی ابن مسعود رجل فقال انی اقراء المفصل فی رکعة فقال اھذا کھذا الشعیر و نثر کنثر الاقل لکن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یقرأ النظائر السورتین فی رکعة و النجم و الرحمن فی رکعة و اقتربت و الحاقة فی رکعة و الطور و الذاریات فی رکعت و اذا وقعت و نون فی رکعة و سأل سائل و النازعات فی رکعة وویل للمطففین و عبس فی رکعة و المدثر و المزمل فی رکعة و ھل اتٰی و لا اقسم بیوم فی رکعة و عم یتسألون و المرسلات فی رکعة و الدخان و اذا الشمس کورت فی رکعة قال ابو داؤد ھذا فی تالیف ابن مسعود رحمه اللہ یعنی علقمہ اور اسود فرماتے ہیں کہ عبد اللہ بن مسعودؓ کے پاس ایک آدمی آ کر کہنے لگا کہ میں ایک رکعت میں مفصل پڑھتا ہوں آپ نے فرمایا کہ یہ مثل شعر گوئی کے ہے اور مثل گرنے روی سوکھی کھجوروں کے ہے۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو سورتیں مقدار میں برابر کی ایک رکعت میں پڑھتے تھے۔ سورۃ نجم و رحمن ایک رکعت میں، سورۃ اقتربت و الحاقہ ایک رکعت میں، طور قو ذاریات ایک رکعت میں، واقعہ و نون ایک رکعت میں سأل سائل اور نازعات ایک رکعت میں، مطففین و عبس ایک رکعت میں مدثر و مزمل ایک رکعت میں و هل اتی و لا اقسم ایک میں و عم و مرسلات ایک میں اور دخان اور اذا الشمس ایک میں کہا ابودائود نے یہ عبد اللہ بن مسعود کے مصحف کی بناء پر ہے۔‘‘ اس حدیث سے دو مسئلے ثابت ہوئے ایک یہ کہ دو سوروتں کا، جمع کرنا ایک رکعت میں۔ دوسرا یہ کہ موجودہ ترتیب قرآنی کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھنا ثابت ہوا۔ کیوں کہ ابن مسعودؓ نے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، اسی طرح اپنی مصحف میں جمع کر دیا۔ نمبر۲ کی دلیل یعنی نماز میں سورتوں کے اخیر پڑھنے کا ثبوت: و قال قتادة فیمن یرأ بسورة واحدة فی رکعتین او یردد سورة واحدة فی رکعتین کل کتاب اللہ و عز و جل: یعنی قتادہ نے کہا کہ جو شخص ایک سورۃ کو دو رکعتوں میں پڑھے یا ایک ہی سورۃ دو رکعتوں میں جائز ہے کیونکہ ہر ایک سورۃ میں کتاب اللہ ہی کا پڑھنا ہے۔
وجہ استدلال یوں ہے کہ جب ایک سورت کو دو رکعتوں میں یعنی آدھا آدھا کر کے پڑھے گا لا محاله اخیر کی رکعت میں سورے کا آخیر ہو گا۔ جب ایک رکعت میں ایک سورۃ کا آخیر جائز ہو گا تو دونوں رکعتوں میں دو سورتوں کی آخیر کی آیتیں یعنی قرأۃ بالخواتیم کی عدم جواز کی کوئی وجہ نذہیں، کیوں کہ اس صورت میں بھی کتاب ہی کا پڑھنا ہوتا ہے جو عین مقصود شارع ہے یعنی نماز میں قرآن کا پڑھنا۔
نیز مسلم جلد اول صفحہ ۲۷۱ میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص آخیر بقرہ کی دو آیتیں رات کو پڑھے گا۔ اس کو رات کی عبادت کے لیے کافی ہیں۔
یہ حدیث عام ہے نماز، غیر نماز دونوں کو شامل ہے۔ نمبر۳ کی دلیل یعنی موجود ترتیب کے خلاف تقدیم و تاخیر کرنا سورتوں کا نماز میں جائز ہے۔ قرأ الاحنف بالکھف فی الاولی و فی الثانیة بیوسف او یونس وذکر انه صلی مع عمر الصبح بھما۔ یعنی احنف بن قیس نے پہلی رکعت میں سورے کہف اور دوسری میں یوسف یا یونس (شک راوی) پڑھی اور ذکر کیا کہ میں نے حضرت عمرؓ کے پیچھے صبح کی نماز پڑھی حضرت عمرؓ نے بھی اسی طرح یعنی پہلی رکعت میں کہف اور دوسری میں یوسف یا یونس پڑھی۔
لہٰذا موجودہ ترتیب کے خلاف پڑھنا جائز ہو گیا۔ اس پر اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اس وقت حضرت عثمان کی ترتیب نہ تھی اس لیے جائز تھی اب جائز نہیں ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ عدم جواز کی کیا دلیل ہے؟ یہ تو ظاہر ہے کہ عدم جواز کی دلیل نہ تو قرآن میں ہے نہ حدیث میں۔ اگر قرآن و حدیث میں ترتیب عثمانی کے وجوب کی دلیل من جانب اللہ ہو، تو صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یا خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم خلاف نہ کرتے۔ جیسا کہ مصحف ابن مسعودؓ میں ہے۔ نہ اجماع سے عدمِ جواز ثابت ہو سکتا ہے کیوں کہ ترتیب عثمانی پر اجماع نہیں ہے اگر ہوتا تو عبد اللہ بن مسعود کا مصحف نہ ہوتا حالاں کہ اب تک ان کا مصحف ہے۔ علاوہ اس کے تقدیم تاخیر کی وجہ سے کتاب اللہ سے خارج نہیں ہو سکتا، جب کتاب اللہ ہے تو جائز ہے اور یہی مقصود شارع ہے یعنی نماز میں قرآن کا پڑھنا۔
نمبر۴ کی دلیل: یعنی رکعتوں میں سورتوں کی پہلی آیتوں کا پڑھنا۔ عن عبد اللہ بن السائب قرأ النبی صلی اللہ علیه وسلم المؤمنون فی الصبح حتٰی اذا جاء ذکر موسٰی وھارون او ذکر عیسیٰ اخذته سعلة فرکع و قرأ عمر فی الرکعة الاولٰی بمائة و عشرین من البقرة و فی الثانیة بسورة من المثانی و قرأ ابن مسعود باربعین اٰیة من الانفال و فی الثانیة بسورة من المفصل۔ یعنی عبد اللہ بن سائب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز میں سورۃ مومنوں پڑھی جب آپ آیت تم ارسلنا موسیٰ و اخاہ ہارون یا آیت و جعلنا ابن مریم و امه پر پہنچے تو آپ کو کھانسی ہو گئی پس رکوع کیا۔ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود نے پہلی رکعت میں انفال اور دوسری میں مفصل کی ایک صورت پڑھی۔
ان دونوں حدیثوں سے نتماز میں اوائل سورتوں کا پڑھنا ثابت ہو گیا۔ وجہ استدلال یوں ہے کہ جب پہلی رکعت میں اوائل سورتوں کا پڑھنا ثابت ہو گیا تو دوسری میں اختیار ہے بقیہ کو پڑھے یا کسی اور سورت کا پہلا حصہ پڑھے یا اخیر کا حصہ پڑھے، بہر صورت مقصود کتاب اللہ کا پڑھنا ہے۔ جو مقصود شارع ہے۔

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 2 ص 99-102

محدث فتویٰ

تبصرے