سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(172) نماز میں نیت زبان سے ضروری ہے یا نہیں

  • 2923
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1162

سوال

(172) نماز میں نیت زبان سے ضروری ہے یا نہیں
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز میں نیت زبان سے کرنا بدعت ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بدعت ہے چنانچہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ جلد اول مکتوب صد و ہششا دو ششم میں تحریر فرماتے ہیں ’’وہمچنیں است آنچہ علماء و نیت نماز مستحسن داشتہ اندکہ باوجود ارادہ قلب ببان نیز باید گفت و حالاں کہ ازاں سرور علیہ و علیٰ آلہ الصلوٰۃ و السلام ثابت نشدہ نہ بر روایت صحیح و نہ بر روایت ضعیف و نہ از اصحاب کرام و تابعین عظام کہ بزبان نیت کردہ باشند بلکہ چوں اقامت می گفتند تکبیر تحریمہ میفر مووند پس نیت بزبان بدعت باشد آہ‘‘ اور مولانا محمد عبد الحیؒ نے عمدۃ الروایہ میں لکھا ہے احدھا الاکتفاء بنیة القلب و ھو مجری اتفاقا و ھو الطریقة المشروعة الماثورة عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصحابه فلم ینقل عن احد منھم التکلم بنویت او انوی صلوة کذا فی وقت کذا او نحو ذلک کما حققه ابن الھمام فی فتح القدیر و ابن القیم فی زاد المعا واٰہ
ترجمہ: پہلا اس کا اکتفا کرنا ہے ساتھ نیت دل کے اور دل کی نیت کافی ہے بالاتفاق اور یہی طریقہ مشروع و منقول ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب اور ان میں سے کسی ایک سے بھی منقول نہیں ہوا کہ انہوں نے زبانوں سے یوں کہا ہو کہ نیت کی میں نے یا نیت کرتا ہوں میں فلاں نماز کی فلاں وقت میں اور نہ مثل ان الفاظ کے اور کوئی لفظ کہتے۔ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے فتح القدیرمیں اور ابن قیم نے زاد المعاد میں ایسا ہی تحقیق کیا ہے۔
اور مولانا محمد عبد الحیؒ نے آ کام النفائس میں ارقام فرمایا ہے (تنبیہ) کثیراً ما سئلت عن التلفظ بالنیة ھل ثبت ذلک من فعل رسول اللہ صلی اللہ علیه واٰله وسلم و اصحابه و ھل له اصل فی الشرع فاجبت بانه لم ئثبت ذلک من صاحب الشرع و لا من احد من اصحابہ الخ
ترجمہ: زبانی نیت کرنے کا مسئلہ مجھ سے بہت دفعہ پوچھا گیا کہ آیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب ثابت ہے یا نہیں، اور آیا شرع میں اس کی کوئی اصل بھی ہے۔ تو میں نے یہی جواب دیا کہ نہ تو شارع علیہ السلام ہی سے ثابت ہوا اور نہ ان کے صحابیوں میں سے کسی ایک سے ثابت ہوا۔
اور مولانا محمد عبد الحی مغفور نے سعایہ میں تحریر فرمایا ہے نقل فی المرقاة عن زاد المعاد فی ھدی خیر العباد لابن القیم کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم اذا قام الیٰ الصلٰوة قال اللہ اکبر ولم یقل شیئا قبلھا و لا تلفظ بالنیة و لا قال اصلی صلٰوة کذا مستقبلا للقبلة اربع رکعات اماما او ماموما و لا قال اداء و لا قضاء و لا فرض الوقت و ھذاہ بدع لم ینقل عنه احد قط لا بسند صحیح و لا بسند ضعیف و لا مسند و لا مرسل بل و لا عن احد من اصحابه و ما استحبه احد من التابعین ولا الائمة الاربعة الخ وفی فتح القدیر قال بعض الحفاظ لم یثبت عن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم بطریق صحیح و لا ضعیف انه کان یقول عند الافتتاح اصلی کذا و لا عن احد من التابعین بل المنقول اذا قام الی الصلٰوة کبر وھذہ بدعة۔ فتاوٰی مفید الاحناف
ترجمہ: یعنی مرقاۃ میں ابن قیم کی کتاب زاد المعاد فی ہدی خیر العباد سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر فرماتے اور اس سے پہلے کچھ نہ فرماتے اور نہ یوں کہتے کہ میں فلاں نماز کی چار رکعت کعبہ کی طرف منہ کر کے امام یا مقتدی ہو کر پڑھتا ہوں اور نہ ادا یا قضا یا فرض کا نام لیتے اور یہ سب بدعات ہیں۔ کسی نے آپ سے نقل نہیں کیا۔ نہ سند صحیح سے اور نہ سند ضعیف سے اور نہ مسند سے اور نہ مرسل سے بلکہ آپ کے صحابہ میں سے بھی کسی سے منقول نہیں ہوا اور تابعین میں سے بھی کسی نے اس کو مستحب نہیں کہا اور نہ چاروں اماموں نے الخ اور فتح القدیر میں ہے۔ کہ بعض حفاظ حدیث نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ تو صحیح طریق سے ثابت ہے اور نہ ضعیف سے کہ آپ شروع نمازکے وقت کہتے ہوں کہ میں فلاں نماز پڑھتا ہوں اور نہ تابعین میں سے کسی سے ثابت ہوا بلکہ آپ سے تو یہی منقول ہے کہ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر فرماتے۔ لہٰذایہ بدعت ہے۔
فتاوٰی مفید الاحناف
ترجمہ: یہ رسالہ جناب مولانا مولوی محمد عبد الغفور صاحب رمضانپوری بہاری کا ہے۔ ہر خاص و عام کے لیے نافع ہے۔ اور اس میں ان کتابوں کی عبارات جمع کی گئی ہیں جن کے مصنف حنفی المذہب تھے۔ اور اس میں انہیں کے اقوال و افعال درج کئے گئے ہیں جو صوفی مشرب تھے اس تالیف سے لوگوں کو اس بات سے آگاہ کیا ہے۔ کہ اگر کسی مسلمان کا قول یا فعل مطابق اس رسالہ کے پایا جائے، وہ مورد لعن و طعن نہ بنایا جائے۔ (سعیدی)

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3ص 89-90

محدث فتویٰ

تبصرے