سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(156) بعد قائم ہونے جماعت صبح کے اس مسجد میں سنت درست ہیں یا نہیں ۔

  • 2907
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1037

سوال

(156) بعد قائم ہونے جماعت صبح کے اس مسجد میں سنت درست ہیں یا نہیں ۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ادا کرنا سنتوں فجر کا وقت ہونے جماعت فرضوں فجر کے اسی مسجد اور مکان میں درست ہے، یا نہیں


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 متبعان سنت نبوی پر مخفی نہ رہے کہ صحیح مسلم و ترمذی و ابودائود و نسائی و ابن ماجہ وغیرہ میں مذکور ہے کہ اذا اقیمت الصلوة فلا صلوة الا المکتوبة ترجمہ: جب قائم کی جاوے نماز یعنی جب مؤذن اقامت شروع کرے تو اس وقت نماز پڑھی درست نہیں سوائے فرض کے اور ابن عدی نے ساتھ سند حسن کے آگے اس کے یہ نقل کیا ہے کہ اے رسول خدا کے اور نہ دو رکعت سنت فجر کی یعنی کسی نے پوچھا کہ اقامت کے وقت سنت فجر بھی نہ پڑھے فرمایا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جب اقامت ہونے لگے توسنت فجر کی بھی نہ پڑھنی چاہیے اور اس مضمون کی حدیث اور بھی محلی شرح موطا میں مذکور ہے اب معلوم کرنا چاہیے کہ جب رسول خدا نے سنت فجر کی پڑھنے کو وقت اقامت کے منع فرمایا تو پھر اور کے کہنے یا لکھنے کا کیا اعتبار ہے۔ کیوں کہ خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں اطاعت پیغمبر خدا کی لازم کر دی چنانچہ فرماتا ہے۔ ما اٰتکم الرسول فخذوہ و مانھکم عنه فانتھوا ترجمہ جو چیز تم کو رسول دے یا کوئی کام ارشاد کرے پس اس کو لے لو یعنی قبول کرو اور بجال لائو اس کو تو جب حضرت نے سنت پڑھنی وقت قائم ہونے جماعت فرض کے منع کر دیا تو امت کو چاہیے کہ اس پر عمل کرے یعنی نہی فرمانے پر آں حضرت کے عمل کرے یعنی جماعت کے قائم ہونے کے وقت سنت نہ پڑھے ورنہ مخالفت پیغمبر ہو گا۔


خلاف پیمبر کسے رہ گزید     کہ ہرگز بمنزل نخوا ہد رسید


قال اللہ تعالیٰ ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ترجمہ فرمایا خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں کہ کہہ دے تو اے رسول اگر خدا تعالیٰ کو درست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو دوست رکھے گا تم کو خدا۔ محلی شرح موطا میں ہے۔ اذا اقیمت الصلٰوة فلا صلٰوة الا المکتوبة حدیث مرفوع اخرجه مسلم و الاربعة عن ابی ھریرة و اخرجه ابن حبان بلفظ اذا اخذ المؤذن فی الاقامة و احمد بلفظ فلا صلوٰة الا التی اقیمت و ھو اخص و زاد ابن عدی بسند حسن قیل یا رسول اللہ لا رکعتی الفجر قال و لا رکعتی الفجر توربشتی و ھکذا فی القسطلانی مالک عن شریک بن عبد اللہ بن ابی نمر انه سمع قوم الاقامة فقاموایصلون ای التطوع فخرج رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فقال اصلاتان ای السنة و الفرض معا ای موصولا فی وقت واحد اصلاتان معا ذلک فی صلوة الصبح فی الرکعتین اللتین قبل الصبح ثم زاد مسلم بن خالد عن عمرو بن دینار فی قوله صلی اللہ علیہ وسلم اذا اقیمت الصلٰوة فلا صلٰوة الا المکتوبة قیل یا رسول اللہ و لا رکعتی الفجر قال و لا رکعتی الفجر اخرجه ابن عدی و سندہ حسن و اما زیادة الا رکعتی الصبح فی الحدیث فقال البیھقی ھذہ الزیادة لا اصل لھا قال البیھقی و قد روی ابن عمر انه کان اذا رأی رجلا یصلی و ھو یسمع الاقامة ضربه و عن ابن عمر انه ابصر رجلا یصلی الرکعتین و المؤذن یقیم فحصبه و قالت الحنفیة له ان یصلیھما خارج المسجد او خلف اسطوان لا مخالطا فی الصف اذا تیقن بادراک الرکعة الاخیرة مع الامام و من الحنفیة من قال انما انکر النبی صلی اللہ علیه وسلم و قال الصبح اربعا لانه علم انه صلی الفرض او لان الرجل صلاھما فی المجسد بلا حائل فشوش علی المصلین و یرد الاحتمال الاول قوله صلی اللہ علیه وسلم کما فی الکتاب اصلاتان معا و ما للطبرانی عن ابی موسیٰ انہ صلی اللہ علیه وسلم رأی رجلا یصلی رکعتی الغداةو المؤذن یقیم فاخذ منکبیه و قال الا کان ھذا قبل ھذا و یرد الثانی ما فی المسلم عن ابن سرجس دخل رجل المسجد و ھو صلی اللہ علیه وسلم فی صلوة الغداة فصلی رکعتین فی جانب المسجد ثم دخل مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فلما سلم النبی صلی اللہ علیه وسلم قال یا فلان بای الصلوتین اعتددت بصلوتک ہحدک ام بصلوتک معنا انتھٰی فانه یدل علی ان اداء الرجل کان فی جانب لا مخالطا للصف بلا حائل و فی المحیط الرضوی اختلفو فی الکراھة فیما اذا صلی فی المسجد الخارج و الامام فی الداخل فقیل لا یکرہ و قیل یکره لان ذلک کلہ کمکان واحد فاذا اختلف المشائخ فیه کان الاحوط لا یصلی تمام ہوئی عبارت محلی شرح موطا تصنیف مولانا سلام اللہ خلف شیخ الاسلام شیخ عبد الحق محدث دہلوی و ذکر الولواجی امام یصلی الفجر فی المسجد الداخل فجاء رجل یصلی الفجر فی المسجد الخارج اختلف المشائخ فیه قال بعضھم یکرہ لان ذلک کله کمکان واحد بدلیل جواز الاقتداء لمن کان فی المسجد الخارج بمن کان فی المسجد الداخل و اذا اختلف المشائخ فالاحتیاط ان لا یفعل انتھٰی ما فی البحر الرائق الراقم محمد نذیر حسین عفی عنہ   
ترجمہ: جب نماز کھڑی ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ اور کوئی نماز نہیں ہوتی ’’ یہ مرفوع حدیث ہے ایک لفظ یہ ہیں‘‘ تو صرف وہی نماز ہو گی جس کی اقامت ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ صبح کی سنتیں بھی نہیں پڑھنی چاہئیں؟ تو آپ نے فرمایا صبح کی سنتیں بھی نہیں پڑھنی چاہئیں کچھ لوگورں نے اقامت کی آواز سنی اور سنتیں پڑھتے رہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کیا دو نمازیں اکٹھی پڑھی جا رہی ہیں؟ اور یہ صبح کی نماز کا واقعہ ہے امام بیہقی نے کہا یہ جو بعض لوگوں نے الا رکعتی الفجر (مگر صبح کی سنتیں پڑھنی جائز ہیں) اس کا بالکل کوئی اصل نہیں ہے۔ حضرت عمر اگر اقامت کے بعد کسی کو الگ نماز پڑھتے دیکھتے تو اس کو مارتے۔ اقامت ہو گئی ایک آدمی سنتیں پڑھتا رہا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو کناکر ماریں حنفی کہتے ہیں کہ اگر آخری رکعت مل جانے کا یقین ہو تو کسی ستون کے پیچھے یا مسجد کے صحن میں صبح کی سنتیں پڑھ لے اور بعض احناف کہتے ہیں کہ نہ پڑھے کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو روک دیا تھا اور فرمایا تھا کیا دو نمازیں اکٹھی ہو رہی ہیں ایک دفعہ رسول اللہ نے ایک آدمی کو اقامت کے بعد سنتیں پڑھتے دیکھا تو اس کو کندھوں سے پکڑ کر کہا یہ سنتیں اس سے پہلے پڑھ لی ہوتیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے تھے ایک آدمی آیا اس نے پہلے سنتیں پڑھیں پھر جماعت میں شامل ہو گیا جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا ان دونوں نمازوں میں سے تو نے کونسی نماز پسند کی ہے۔ کیا اپنی اکیلی نماز یا ہمارے ساتھ نماز، اگر امام مسجد کے اندر نماز پڑھا رہا ہو اور کوئی آدمی باہر صحن میں سنتیں پڑھ لے تو بعض نے کہا ہے یہ جائز ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ نہ پڑھے کیوں کہ مسجد کا اندر اور باہر ایک ہی مکان کی محیثیت رکھتے ہیں کیوں کہ اگر امام اندر کھڑا ہو تو صحن میں کھڑی ہونے والی صفوں کی نماز اس کی اقتداء میں ہو جاتی ہے اگر یہ دو جگہیں الگ الگ سمجھی جائیں تو باہر کے لوگوں کی نماز نہ ہوتی لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ نہ پڑھی جائیں محلی شرح موطا اور بحر الرائق میں بھی اسی ہے۔

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 70۔72

محدث فتویٰ

تبصرے