سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(138) اسقاط حمل

  • 2889
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3268

سوال

(138) اسقاط حمل
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری بیوی کو پہلے ماہ کا حمل ہے میں کچھ گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے حمل گروانا چاہتا ہوں کیا پہلے ماہ کا حمل گروانا صحیح ہو گا ۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
الجواب بعون الوھاب

گھریلو مجبوریوں سے مراد اگر تو معاشی تنگی ہے تو پھر اسقاط حمل ایک حرام عمل ہے کیونکہ رزق کی ذمہ داری اللہ پر ہے وہ ہر نفس کو رزق مہیا کرتا ہے۔

اس سلسلے میں سعودی عرب کی کبارعلماء کی کمیٹی نے درج ذیل فتویٰ صادر فرمایا ہے۔:

1 - مختلف مراحل میں اسقاط حمل جائز نہيں لیکن کسی شرعی سبب اور وہ بھی بہت ہی تنگ حدود میں رہتے ہوئے ۔

2 - جب حمل پہلے مرحلہ میں ہوجو کہ چالیس یوم ہے اور اسقاط حمل میں کوئی شرعی مصلحت ہو یا پھر کسی ضررکو دورکرنا مقصود ہوتو اسقاط حمل جائز ہے ، لیکن اس مدت میں تربیت اولاد میں مشقت یا ان کے معیشت اورخرچہ پورا نہ کرسکنے کےخدشہ کے پیش نظر یا ان کے مستقبل کی وجہ سے یا پھر خاوند بیوی کے پاس جو اولاد موجود ہے اسی پراکتفا کرنے کی بنا پراسقاط حمل کروانا جائز نہيں ۔

3 - جب مضغہ اورعلقہ ( یعنی دوسرے اورتیسرے چالیس یوم ) ہو تو اسقاط حمل جائز نہيں لیکن اگر میڈیکل بورڈ یہ فیصلہ کرے کہ حمل کی موجودگي ماں کے لیے جان لیوا ہے اور اس کی سلامتی کے لیے خطرہ کا باعث ہے توپھر بھی اس وقت اسقاط حمل جائز ہوگا جب ان خطرات سے نپٹنے کے لیے سارے وسائل بروے کارلائيں جائيں لیکن وہ کارآمد نہ ہوں۔

4 - حمل کے تیسرے مرحلے اور چارماہ مکمل ہوجانے کے بعد اسقاط حمل حلال نہیں ہے لیکن اگر تجربہ کاراور ماہر ڈاکٹر یہ فیصلہ کریں کہ ماں کے پیٹ میں بچے کی موجودگی ماں کی موت کا سبب بن سکتی ہے ، اور اس کی سلامتی اورجان بچانے کے لیے سارے وسائل بروئے کارلائے جاچکے ہوں ، تو اس حالت میں اسقاط حمل جائز ہوگا۔

ان شروط کے ساتھ اسقاط حمل کی اجازت اس لیے دی گئی ہے کہ بڑے نقصان سے بچا جاسکے اورعظیم مصلحت کوپایا جاسکے . (دیکھیں: فتاوی الجامعۃ:3 / 1056 )

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد3

تبصرے