امام اور مقتدی شروع تکبیر سے اپنی اپنی جگہ کھڑے ہو جائیں یا جب مکبّر ’’حی علی الصلوٰۃ‘‘ پر پہنچے؟
کسی حدیث میں میں نے یہ ترتیب نہیں دیکھی علماء کی ذہنیت ہے جس پر عمل کرنا نہ واجب ہے، نہ حرام۔
تشریح
یہ بریلوی علماء کی ایجاد ہے جو صحیح نہیں ہے۔ حدیث صحیح سے امام کا بعد تکبیر مؤذن یعنی تکبیر پوری کہنے کے بعد اپنی جگہ مصلّٰی ۱؎ پر کھڑا ہونا اور تکبیر تحریمہ کہنا ثابت ہے۔ اور مقتدیوں کا امام سے بھی پہلے اپنی اپنی جگہ پر کھڑا ہونا ثابت ہے۔ ’’حی علی الصلوٰة‘‘ سے نماز کا بلاوا ہے اور ’’قد قامت الصلوٰة‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ نماز کے لیے جلد آئو نماز قائم ہونے کو ہے۔ ماضی بمعنی مضارع ہے۔ اول کلام میں بھی آتی ہے۔ اور مجاز بالمشارف بھی، مسئلہ ہے حدیث یہ ہے۔ عن ابی ھریرةان الصلٰوة کانت تقام لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاخذ الناس مصافھم قبل ان یاخذ النبی صلی اللہ علیه وسلم مقامه (رواہ مسلم و ابو داؤد) و عن ابی ھریرة قال اقیمت الصلٰوة و عدلت الصفوف قیاماً قبل ان یخرج الینا النبی صلی اللہ علیہ وسلم فخرج الینا فلما قام فی مصلاه الحدیث متفق علیه و لا خلاف بینه و بین الحدیث الثانی اذا اقیمت الصلٰوة فلا تقوموا حتٰی ترونی قد خرجت اخرجه مسلم و اصحاب السنن و البخاری مختصراً نیل الاوطار ص ۱۶۲ ج ۳ لان المنع قبل الخروج عن البیت و الجواز بعد الخروج و الخروج رؤیتھم له صلی اللہ علیه وسلم۔ الغرض یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے کہ مقتدیوں کے لیے لفظ ’’قد قامت الصلوٰة‘‘ کا لفظ سننے سے پہلے جماعت میں صفیں سیدھی کرنے کے لیے کھڑا ہونا حرام ہو جو ایسا کہتا ہے وہ غلطی پر ہے۔ (ابو سعید شرف الدین دہلوی) فتاویٰ ثنائیہ ص ۳۰۲ ج ۱)