جماعت ہو جانے کے بعد اگر دو چار آدمی آ جائیں تو وہ اپنی علیحدہ جماعت کراسکتے ہیں یا نہیں؟ اس میں مختلف اظہار رائے کرتے ہیں کوئی کہتا ہے کہ اسی مسجد میں دوسری جماعت جائز نہیں کوئی کہتا ہے، کہ جماعت میں سے اٹھ کر کوئی آدمی جماعت کرائے، جماعت کرانے والوں کا کوئی حق نہیں، کوئی کہتا ہے، کہ کراسکتے ہیں مگر امام کی جگہ پر نہیں، کوئی کہتا ہے کہ اگر امام بعد میں آئے تو کراسکتا ہے، دوسرا نہیں، وغیرہ وغیرہ، جس طرح جائز ہو حکم فرمائیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم منتقی میں ہے۔ عن ابی سعیدؓ ان رجلا دخل المسجد و قد صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باصحابه فقال من یتصدق علیٰ ذا فیصلی معه فقام رجل من القوم رواہ احمد و ابوداؤد و الترمذی بمعناہ (منتقی باب م صلی فی المسجد جماعۃ بعد امام الحی۔)
حضرت ابو سعیدؓ سے روایت ہے کہ جماعت سے فراغت کے بعد ایک شخص مسجد میں داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون اس پر صدقہ کرتا ہے کہ اس کے ساتھ نماز پڑھے پس ایک شخص قوم سے کھڑا ہوا۔
مشکوٰۃ میں بھی یہ حدیث ہے اس کے اخیر میں ہے فقام رجل فصلی معه (مشکوٰۃ باب ما علی الماموم من المتابعۃ و حکم المسبوق) یعنی ایک شخص کھڑا ہوا پس اس کے ساتھ نماز پڑھی۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس مسجد میں نماز ہو چکی ہو اسی میں دوسری نماز بھی درست ہے اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ جو نماز پڑھ چکے ان میں سے کوئی کرائے آنے والوں سے نہ کرائے یہ حدیث سے ناواقفی پرمبنی ہے۔ کیوں کہ حدیث میں ہے۔ لاتصلوا صلوٰة فی یومٍ مرتین رواہ احمد و ابوداؤد و النسائی۔ مشکوٰۃ باب من صلی صلوة مرتین۔
اس حدیث میں دوبارہ نماز پڑھنے سے ممانعت آئی ہے مگر باوجود اس کے دوسرے کو جماعت کا ثواب دلانے کی خاطر دوبارہ نماز جائز ہو گی تو باہر سے آنیوالا جس نے نماز ابھی نہیں پڑھی اس کو بطریق اولیٰ جائز ہو گئی اور جگہ بدلنے کی شرط کرنا یہ بے ثبوت بات ہے۔ مسجد سب یکساں ہے جہاں چاہے جماعت کرائے خواہ پہلی جگہ جہاں جماعت ہو چکی ہو یا دوسری جگہ۔ اسی طرح یہ شرط کرنا کہ امام مسجد میں آئے تو کرا سکتا ہے۔ یہ بھی بے ثبوت ہے بلکہ اوپر کی حدیث میں اس کی تردید ہے کیوں کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو اصل امام تھے، مسجد میں نہیں آئے بلکہ ایک اور امام آیا ہے۔ ابن ابی شیبہؒ کی حدیث میں ہے کہ آنے والا شخص حضرت ابو بکر صدیقؓ تھے۔ (ملاحظہ ہو نیل الاوطار جلد نمبر ۳ ص ۳۰) فقط
(عبد اللہ امرتسری روپڑی) (تنظیم اہلحدیث لاہور جلد نمبر ۱۵ ش ۲۴)