سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(14) کیا ولیمہ کے لئے جماع شرط ہے؟

  • 2846
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3697

سوال

(14) کیا ولیمہ کے لئے جماع شرط ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا ولیمہ کرنے کے لئے دولہا و دولہن کا آپس میں ملاپ ضروری ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اول:

افضل تو يہى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا اور پيروى كرتے ہوئے وليمہ رخصتى اور دخول كے بعد كيا جائے، ليكن اگر ايسا كرنا ميسر نہ ہو تو پھر دخول سے قبل يا پھر عقد نكاح كے وقت يا عقد نكاح كے بعد بھى وليمہ كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

كيونكہ اس معاملہ ميں وسعت پائى جاتى ہے، اور پھر انسان كو اپنے علاقے كے رواج كا خيال كرتے ہوئے اس پر عمل كرنا بہتر اور اولىٰ ہے؛ اس ليے كہ اس كى كوئى شرعى نص نہيں ملتى جو اس كے وجوب پر دلالت كرتى ہو يا پھر كسى محدود وقت كے استحباب پر.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" وليمہ كے وقت ميں سلف رحمہ اللہ كا اختلاف ہے كہ آيا يہ عقد نكاح كے وقت ہوگا يا پھر دخول كے وقت يا دخول كے بعد، يا كہ اس كے ليے وسعت ہے كہ عقد نكاح سے شروع ہو كر دخول ہونے تک كسى بھى وقت كيا جا سكتا ہے، اس ميں كئى ايک اقوال پائے جاتے ہيں " انتہىٰ (ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 230 )

اور امام صنعانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" شافعيہ ميں سے ماوردى نے بيان كيا ہے كہ وليمہ دخول كے وقت كيا جائے گا.

اور امام سبكى رحمہ اللہ كہتے ہيں: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے عمل سے منقول ہے كہ وليمہ كا وقت دخول كے بعد ہے.

لگتا ہے سبكى رحمہ اللہ زينب بنت جحش رضى اللہ تعالى عنہا سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى شادى كے قصہ كى طرف اشارہ كر رہے كہ انس رضى اللہ تعالى تعالىٰ عنہ بيان كرتے ہيں كہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے زينب رضى اللہ تعالى عنہا سے بنا كى تو دوسرے دن صبح لوگوں كو كھانے كى دعوت دى.

امام بيہقى رحمہ اللہ نے اس حديث پر "وليمہ كا وقت " كا باب باندھا ہے" انتہىٰ ( ديكھيں: سبل السلام ( 1 / 154 )

انس رضى اللہ تعالىٰ عنہ كى حديث امام بخارى رحمہ اللہ اور مسلم رحمہ اللہ نے درج ذيل الفاظ ميں روايت كى ہے:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے زينب بنت جحش رضى اللہ تعالى عنہا سے رات بنا كى اور صبح سورج اونچا ہونے كے بعد لوگوں كو كھانے كى دعوت دى ... " (صحيح بخارى حديث نمبر:4793 )، صحيح مسلم حديث نمبر:1428)

اور بخارى كے الفاظ يہ ہيں:

" نبى كريم صلى اللہ و سلم نے زينت بنت جحش رضى اللہ تعالى عنہا سے ( رات بنا كى ) تو صبح لوگوں كو دعوت دى تو لوگوں نے كھانا كھايا " (صحيح بخارى حديث نمبر: 5166)

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ بيان كرتے ہيں:

" زينب بنت جحش رضى اللہ تعالى عنہا سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى شادى والى حديث ميں وليمہ كا وقت اور اس كا طريقہ بيان ہوا ہے، جو اس پر دلالت كرتى ہے كہ وليمہ دخول كے بعد ہوگا " انتہىٰ (ديكھيں: الاختيارات ( 346 )

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس مسئلہ ميں انس رضى اللہ تعالىٰ عنہ كى حديث صريح بيان كرتى ہے كہ وليمہ دخول كے بعد ہے؛ كيونكہ انس رضى اللہ تعالى عنہ كا بيان ہے: " رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے زينب رضى اللہ تعالى عنہا سے بنا كى تو صبح لوگوں كوكھانے كى دعوت دى "

بعض مالكى حضرات نے مستحب قرار ديا ہے كہ وليمہ بناء كے وقت ہوگا اور وليمہ كے بعد دخول كيا جائے گا، آج كل لوگوں كا عمل بھى اسى پر ہے " انتہىٰ (ديكھيں: فتح البارى : 9 / 231 )

اور مرداوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اولىٰ اور افضل تو يہى قول ہے كہ وليمہ كا وقت وسيع ہے جو عقد نكاح سے شروع ہو كر رخصتى كے ايام ختم ہونے تک رہتا ہے.

كيونكہ اس سلسلہ ميں صحيح احاديث وارد ہيں، ليكن پورى خوشى اور سرور تو دخول كے بعد ہى ہے، ليكن يہ رواج بن چكا ہے كہ رخصتى اور دخول سے كچھ دير قبل وليمہ كيا جاتا ہے " انتہىٰ (ديكھيں: الانصاف ( 8 / 317 )

امام بخارى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" باب ہے وليمہ اور دعوت قبول كرنے كا حق، اور جو سات ايام وغيرہ ميں وليمہ كرے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايک يا دو دن مقرر نہيں كيے "

حافظ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يعنى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے وليمہ كے ليے كوئى معين وقت مخصوص نہيں فرمايا كہ وہ وقت واجب يا مستحب ہو، اسے اطلاق سے اخذ كيا گيا ہے.

اور دميرى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" فقھاء كرام نے شادى كے وليمہ كے وقت ميں بحث نہيں كى، صحيح يہى ہے كہ يہ رخصتى اور دخول كے بعد ہے، شيخ سبكى كہتے ہيں: دخول كے بعد اور دخول سے قبل جائز ہے بغوى رحمہ اللہ كے بيان كے مطابق وليمہ كا وقت وسيع ہے " (ديكھيں: النجم الوھاج ( 7 / 393 )

اور ابن طولون كہتے ہيں:

" اقرب يہى ہے كہ اس سلسلہ ميں عرف سے رجوع كيا جائے گا " انتہىٰ(ديكھيں: فص الخواتم فيما قيل في الولائم ( 44 )

اور شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:

" شادى كے وليمہ كا وقت وسيع ہے، جو عقد نكاح سے شروع ہو كر شادى كے ايام ختم ہونے تک رہتا ہے " انتہى (ديكھيں: الملخص الفقھى ( 2 / 364 )

دوم:

وليمہ ميں مدعوين كے ليے كوئى حد مقرر نہيں، بلكہ اس ميں وليمہ كرنے والےشخص كى استطاعت اور قدرت ديكھى جائے گى.

ابن بطال رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" وليمہ حسب استطاعت آسانى كے ساتھ واجب ہے، اور اس ميں مدعو كرنے كے ليے افراد كى كوئى حد اور عدد متعين نہيں كہ اس سےكم نہيں بلائے جا سكتے " انتہىٰ (ديكھيں: شرح صحيح البخارى ( 13 / 282 )

اور ايک مقام پر رقم طراز ہيں:

" جو كوئى بھى وليمہ كى دعوت ميں زيادہ افراد بلائےگا وہ افضل ہے كيونكہ اس طرح نكاح كا اعلان زيادہ ہوگا، اور پھر جتنے زيادہ لوگ ہونگے اس كے مال و اہل ميں بركت كى دعا بھى زيادہ ہو گى " انتہىٰ(ديكھيں: شرح صحيح البخارى ( 13 / 282 )

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الطہارہ جلد 2

تبصرے