سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(57) ہر کام کی ابتداء بسم اللہ سے کرنی چاہیے

  • 2820
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2267

سوال

(57) ہر کام کی ابتداء بسم اللہ سے کرنی چاہیے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جمیع امور نیک مثل وقت وضو یا کھانے پینے یا وقت جماع وغیرہ کے سوائے شروع سورہ قرآن شریف کے پوری  بِسم اللّٰہ الرحمن الرحیم پڑھنی سنت ہے یا فقط  بِسْم اللّٰہ ہی پر اکتفا کیا جائے اور درصورت پوری  بِسم اللّٰہ پڑھنے کے بدعت ہو جاتی ہے یا نہیں۔


 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 میرے فہم میں یہ سب تشددات ہیں الفاظ ماثورہ پر اگر کچھ الفاظ حسنہ زیادہ ہو جائیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم وغیرہ کتب حدیث میں موجود ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ تلبیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسی قدر تھا
((لبیک اللھم لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمة لک والملک لا شریک لک))
اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس پر یہ کلمات زیادہ کرتے تھے
((لبیک وسعدیک والخیر بیدیک لبیک والرغباء الیک والعمل))
بہت مواضع میں ثابت ہے کہ صحابہ کرام اور علماء اسلام الفاظ ماثورہ پر درود شریف اور دعوات میں بعض الفاظ زیادہ کرتے تھے اور یہ تعامل بلا نکیر جاری رہا۔ نماز میں بھی اگر ادعیہ ماثورہ پر زائد دُعا پڑھی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں دیکھو صحیح بخاری وغیرہ کتب حدیث میں ہے ایک شخص نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتا تھا قومہ میں یہ دُعا پڑھی:
((ربنا ولک الحمد حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ))
جس وقت آپ نماز سے فارغ ہو گئے آپ نے فرمایا یہ کلمات کس نے پڑھے ایک روایت میں ہے کہ آپ نے تین دفعہ فرمایا صحابہ ساکت ہو گئے اور پڑھنے والا ڈر گیا کہ شاید آپ میرے پڑھنے سے ناراض ہو گئے آپ نے فرمایا  من القائل فانہ لم یقل باسا کس نے یہ کلمات کہے ہیں اس نے کوئی بُری بات نہیں کہی پھر وہ شخص بولا
((انا قلتھا لم اردبھا الاخیرا فقال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم رأیت بضعۃ وثلاثین ملکا یبتد رونھا ایھم یکتبھا اول))
’’یعنی تیس (۳۰) سے کچھ زیادہ فرشتے اس کے لکھنے کے واسطے آئے تھے ہر ایک چاہتا تھا کہ میں اس کو پہلے لکھوں، ‘‘
اس سے ثابت ہوا کہ ماثورہ پر زیادت جائز ہے کیوں کہ یہ دُعا اس شخص نے اپنی طرف سے ماثورہ پر زیادتی کی تھی اگر یہ تعلیم نبوی ہوتی تو خوف کس بات کا تھا جس سے وہ سکوت کرتا رہا اور جواب نہ دے سکا۔ اسی طرح ایک شخص نے نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چھینک کر یہ دُعا پڑھی:
((الحمد للّٰہ حمداً کثیراً طیباً مبارکاً علیہ کما یحب ربنا ویرضٰی))
آپ نے نماز سے فارغ ہو کر دو دفعہ پوچھا یہ پڑھنے والا کون تھا کوئی نہ بولا تیسری دفعہ پھر پوچھا آخر وہ شخص بولا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے پڑھا۔
((قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم لقد ابتدرھا بضعۃ وثلثون ملکا ایھم یصعد بھا))
’’آپ نے فرمایا کہ کچھ اوپر تیس فرشتے دوڑے ان کلمات کے لیے کہ کون اوپر لے جاوے گا‘‘رواہ ابو دائود والترمذی والنسائی۔
حدیث میں تو فقط چھینک کے واسطے اس قدر وارد ہے الحمد للہ علی کل حال، یہ زیادت اس شخص نے اپنی طرف سے کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تحسین فرمائی اس کے نظائر بکثرت ہیں اگر کل کا استیعاب کیا جاوے تو ایک مستقل کتاب بنے گی۔ غرضیکہ اس قسم کے زیادات بدعت سے نہیں بلکہ  فمن تطوع خیرا فھو خیر لہ میں داخل ہیں۔ فقط عبد الجبار عفی عنہ۔ سید محمد نذیر حسین
ھو الموفق:… اس مسئلہ کی تحقیق عون المعبود شرح ابی دائود صفحہ ۴۰۹ جلد ۴ میں بسط کے ساتھ کی گئی ہے من شاء زیادۃ التحقیق فلیر اجع الیہ۔ کتبہ محمد عبد الرحمن المبارکپوری عفا اللہ عنہ ۔ فتاوی نذیریہ صفحہ ۴۴۸، ج ۱ ، الجواب صحیح علی محمد سعیدی

 

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الطہارۃجلد 1 ص 57-58


محدث فتویٰ

تبصرے