السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
امید ہے ایمان و صحت کی بہترین حالت میں ہوں گے ۔اگر کسی لڑکی کے والدین اپنی بیٹی کی شادی پر جہیز کے لیے مالی مدد کا تقاضا کریں تو کیا ان کی مدد کرنی چاہیے۔ ؟جب کہ جہیز دینا ‘اسلام میں بذات خود اچھا فعل تو نہیں ہے (ہمارے تشنہ علم کے مطابق ) ۔۔ براہ کرم اس معاملے میں رہنمائی فرمادیجیے ۔۔۔۔۔جزاک اللہ خیرا۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!جہیز عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے اسباب یا سامان ؛ یہ اس سامان کو کہتے ہیں جو لڑکی کو نکاح میں اس کے ماں باپ کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ جہیز دینے کی رسم پرانے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ ہر ملک اور ہر علاقے میں جہیز مختلف صورتوں میں دیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر زیورات ، کپڑوں ، نقدی اور روزانہ استعمال کے برتنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں یہ رسم ہندو اثرات کی وجہ سے داخل ہوئی اور ایک لعنت کی شکل اختیار کر لی ۔ کتنی ہی عورتیں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھر میں بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہو جاتی ہیں ۔ کم جہیز کی وجہ سے بہت سی عورتوں کی زندگی عذاب ہو جاتی ہے؛ مار پیٹ کے علاوہ بعض دفعہ ان کو جلا دیا جاتا ہے یا ان پر تیزاب پھینکا جاتا ہے ۔ دوسری طرف آج کل کا معاشرہ انسانی رشتوں سے زیادہ دولت کو اہمیت دیتا ہے جس کی وجہ سے یہ لعنت اور بھی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اسلام میں جہیز کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام سادگی کا دین ہے اور اسلام کی نظر میں عورت کا بہترین جہیز اس کی بہترین تعلیم و تربیت ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ایک غریب آدمی نا چاہتے ہوئے بھی جہیز دینے پر مجبور ہوتا ہے،حالانکہ یہ خاوند کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ گھر کا سامان مہیا کرے۔ اس کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ ایسے لڑکوں کے رشتے تلاش کئے جائیں جو جہیز کے طالب نہ ہوں ،اور ایساکرنے سے اللہ تعالی ضرور کوئی نہ کوئی راہ نکال دے گا۔ لہذا جہیز میں مدد کرنے کی بجائے شادی کے دیگر امور جیسے کھانا کھلانا وغیرہ میں تعاون کیا جا سکتا ہے۔ اور حتی الامکان اس بری رسم کے خاتمے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ علمائے حدیثکتاب الصلاۃجلد 1 |