سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(496) حلال جانور اگر مر جائے تو اس کی چربی کا استعمال کیسا ہے؟

  • 2781
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2901

سوال

(496) حلال جانور اگر مر جائے تو اس کی چربی کا استعمال کیسا ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حلال جانور مر جائے تو کیا اُس مردار کی چربی صابن وغیرہ میں استعمال کرنا جائز ہے؟ اور ایسے صابن سے کپڑے پاک ہو جائیں گے؟
(نوٹ) اس بارہ میں حضرت العلام رحمۃ اللہ علیہ کا مطبوعہ فتویٰ درج ذیل ہے۔ (حافظ عبد القادر روپڑی)


 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث میں ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَاسٍ قَالَ تَصُدِّ عَلٰی مَوْلَاة طیمُوْنَة بِشَاة فَمَا تَتْ فَمَنِّّ فَمَاتَتْ فَمَرَّبِھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ ھَلَّا اَخَذْتُمْ اِھْابھا فَدَبِغْتُمُوْہٗ بِہٖ فَقَالُوْا اِنِّھَا مَیْتَة فَقَالَ اِنَّمَا حُرِّمَ اکُلُھَا (متفق علیہ)
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے میمونہ رضی اللہ عنہا کی لونڈی کو کسی نے ایک بکری صدقے میں دی۔ وہ مر گئی، رسول اللہؐ نے اس کو پڑا ہوا دیکھا تو فرمایا: تم نے اس کی کھال کیوں نہ لی؟ دباغت کر کے کام میں لاتے۔ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ مردار تھی۔ ‘‘ آپ نے فرمایا۔ مُردار کا کھانا حرام ہے۔‘‘
اس حدیث میں صاف تصریح ہے کہ مُردار کا کھانا حرام ہے اس سے انتفاع حرام نہیں۔ ’’انما‘‘ کلمہ حصر ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ مُردار کا صرف کھانا ہی حرام ہے اس سے دوسرا ہر قسم کا انتفاع درست ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔  اعطیت جوامع الکلم یعنی خدا نے مجھے جامع کلمات دئیے ہیں۔ اس بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لفظ کھانے کی حرمت بھی بیان کر دی اور دیگر صورتوں میں استعمال کی اجازت بھی دے دی۔ الگ لفظ بولنے کی ضرورت نہ رہی۔
رہی یہ بات کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چمڑے کی بابت فرمایا ہے کہ تم نے اس کس چمرا کیوں نہ اُتار لیا اور چربی وغیرہ کے بابت کچھ نہیں فرمایا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اُصول کا مسئلہ ہے کہ
((وقائع الاعیان لا یحتج بھا علی العموم۔))  (نیل الاوطار جلد ۳ باب انعقاد الجمعہ بارد العین ص ۱۰۴)
یعنی خاص واقع سے عام استدلال صحیح نہیں ہوتا، اسی لیے مشہور ہے۔  اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال
اور یہاں اسی طرح ہے کیوں کہ چربی موٹے تازے حیوان پر ہوتی ہے، خدا جانے وہ بکری بیچاری کس حالت میں مری ہو گی، اس لیے احتمال ہے کہ چربی کے نہ ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چربی کا ذکر نہ کیا ہو یا چربی ہو، لیکن چمڑہ چوں کہ بے فائدے کی شے ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پر اکتفا کی، خاص کر معمولی چربی کے لیے مُردار کی اتنی چیر پھاڑ کون کرتا ہے، چوہڑے چمار بھی نہیں کرتے، مسلمان کیا کرے گا! ہاں چمڑا بڑے فائدہ کی شے ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی طرف توجہ دلائی اور بکری کے مردار ہونے پر شبہ ایسا لفظ بول دیا جس سے اس بات کی اجازت نکل آئی کہ اگر ماکول اللحم مُردار کی کسی دوسری شے کی بھی کسی وقت ضرورت ہو تو کھانے کے علاوہ کسی اور صورت سے فائدہ اٹھایالیا جائے۔
اور بہت سے علماء اس طرف گئے ہیں کہ مُردار کے بال، ہڈی، ناخن، کُھریہ سب کچھ پاک ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مذہب ہے اور ایک قول امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی ہے اور امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فتاویٰ جلد اوّل ص ۳۹ میں فرمایا ہے۔  وھو الصواب (یعنی یہی قول حق ہے) پھر جہاں اور دلائل دئیے ہیں، ایک دلیل ’’انما حرم اکلہا‘‘ بھی دی ہے۔ بلکہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ اس حدیث میں دباغت کا ذکر سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ (جو زہری رحمۃ اللہ علیہ تابعی کے شاگرد ہیں) کی غلطی ہے کیوں کہ زہری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ اس حدیث کی وجہ سے چمڑے سے انتفاع، قبل از دباغت بھی جائز قرار دیتے تھے۔ گویا نجاست کی حالت میں چمڑے کو خواہ پہنو خواہ نیچے بچھائو یا کسی اور طرح سے فائدہ اٹھائو، یہ سب کچھ ان کے نزدیک درست ہے اور دلیل یہی ہے  انّما حرم اکلھا ہے۔ رہی یہ بات کہ چمڑہ کے علاوہ مُردار کی دیگر اشیاء چربی کی بیع جائز ہے یا نہیں؟ سو حدیث میں ہے
عَنْ جَابر بن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ عنھما انہ سمع رسول اللّٰ صلی اللہ علیہ وسلم یقول عام الفتح وھو بمکة ان  اللّٰہ ورسولہ حرم بیع الخمرت والمیتة والخنزیر والاصنام فقیل یا رسول اللّٰہ ارأیت شحوم المیتة انہ تطلیٰ بھا السفن وتدھن بھا الجلود ویستصبح بھا الناس فقال لا ھو ۱؎ حرام، ثم قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم عند ذالک قاتل اللّٰہ الیھودان اللّٰہ لما حرم علیھم شحومھا اجملوۃ ثم باعوہ فاکلوہ ثمنہ۔ (متفق علیہ، بلوغ المرام، کتاب البیوع)
’’جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے سال فرماتے سُنا اور آپ مکہ میں تھے‘اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب اور مُردار اور خنزیر اور بتوں کے فروخت کرنے کو حرام کیا ہے، عرض کیا گیا اے رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم، مُردار کی چربی کے متعلق کیوں کہ اس سے کشتیاں اور چمڑے چکنے کیے جاتے ہیں۔ اور لوگ اس کو چراغ میں جلاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں بلکہ وہ حرام ہے، پھر اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہود کو قتل کرے اللہ تعالیٰ نے باوجودیکہ اس کو حرام کیا لیکن انہوں نے اس کو پگھلا کر فروخت کرنا اور قیمت کھانی اختیار کی۔‘‘
۱؎ یاد رہے کہ اس حدیث میں لفظ ’’ہو حرام‘‘ میں ہو کا مرجع بیع ہے۔ چنانچہ امام شوکانیؒ نے انیل الاوطار جلد نمبر ۵ میں اور علامہ مسلینی نے سبل السلام شرح بلوغ المرام میں اس کی تشریح کی ہے۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مُردار کی چربی اور دیگر اشیاء کی بیع حرام ہے نہ کہ انتفاع۔ یعنی چمڑے کے سوا مُردار کی کوئی شے بیچ کر پیسے برتنے دُرست نہیں ویسے فائدہ اٹھانا درست ہے، حرمتِ بیع سے حرمت انتفاع ثابت نہیں ہوتی مثلاً قربانی عقیقہ وغیرہ کا گوشت کھا سکتے ہیں اور اس کی دیگر اشیاء برت سکتے ہیں، لیکن فروخت کر کے پیسے نہیں برت سکتے، اسی طرح کتے بلی کی خرید و فروخت منع ہے مگر ان سے فائدہ اُٹھانا درست ہے۔
پس ماکول اللحم جانور مر جائے تو اس کی چربی کی بیع منع ہے صابن وغیرہ میں استعمال دُرست ہے۔

(حافظ عبد اللہ روپڑی امرتسری)     (تنظیم اہل حدیث جلد نمبر ۱۷، شمارہ ۱۸)

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الطہارۃجلد 1 ص 35۔36


محدث فتویٰ

تبصرے