سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(487) خاوند کی دوری سے طلاق

  • 2772
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-02
  • مشاہدات : 1919

سوال

(487) خاوند کی دوری سے طلاق
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری کزن کی شادی ہوچکی ہے۔ دو بچیاں ہیں۔ اب تین سال سے شوہر سعودی عرب میں ہے۔ رابطہ بھی رکھتا ہے اور خرچ بھی دیتا ہے۔ لیکن تین سال سے واپس نہیں آیا۔ کیا میری کزن اسے چھوڑ کر دوسرا نکاح کر سکتی ہے، یا اسی کا انتظار کرتی رہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شرعی نقطہ نظر سے کوئی بھی شخص چار ماہ سے زیادہ اپنی بیوی کی اجازت کے بغیر اس سے دور نہیں رہ سکتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے زیادہ سے زیادہ مدت چار ماہ مقرر کی ہے،

تاریخ الخلفاء میں جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ ذکر کیا ہے کہ آپ رات کے وقت گشت کر رہے تھے تو ایک گھر سے ایک عورت کی آواز آرہی تھی اور وہ کچھ اشعار پڑھ رہی تھی۔ مفہوم یہ تھا کہ اس کا شوہر گھر سے کہیں دور چلا گیا تھا اور وہ اس کے فراق میں غمزدہ تھی۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ گھر آئے اور اپنی زوجہ سے دریافت کیا کہ شادی شدہ عورت شوہر کے بغیر کتنی مدت صبر کر سکتی ہے تو زوجہ نے جواب دیا کہ تین سے چار ماہ۔ آپ نے حکم جاری کر دیا کہ ہر فوجی کو چار ماہ بعد ضرور چھٹی دی جائے تاکہ ہر فوجی اپنی بیوی کا حق ادا کر سکے۔ (تاریخ الخلفاء : 142)

علماء کرام فرماتے ہیں کہ چار ماہ تک اگر شوہر عورت کا حق ادا نہ کرے تو عورت کو حق حاصل ہے کہ وہ خلع کا مطالبہ کرے یہ اس صورت میں ہے جب عورت راضی نہ ہو۔ اس لیے شوہر کو چاہیے کہ وہ عورت کو راضی رکھے اور ہوسکے تو کم از کم سال میں ضرور اپنے گھر کا چکر لگائے، اگر ممکن ہو تو عورت کو اپنے ساتھ ہی رکھے۔ باہمی رضامندی سے اگر زیادہ وقت دور رہ سکتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر فتنہ کا خوف ہو تو پھر رضامندی بھی بے فائدہ ہے کیونکہ زیادہ عرصہ تک گھر واپس نہ آنا بہت سے نقصانات کا باعث بن سکتا ہے۔

اس مدت کے بعد بیوی کی رضا مندی کے بغیر اس سے دور رہنا جائز نہیں ہے۔لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ بیوی سے دور رہنے کی شکل میں طلاق واقع نہیں ہوتی ہے ،جیسا بعض لوگوں کا خیال ہے۔ لہذا صورت مسؤلہ میں آپ کی کزن کے پاس دو آپشن ہیں کہ وہ اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہے یا نہیں۔؟ اگر رہنا چاہتی تو بھی اور اگر نہیں رہنا چاہتی تو بھی اپنے والدین کو سارے معاملے سے آگاہ کردے۔ اور والدین کو چاہئے کہ وہ اس کے خاوند کو صورت حال کی نزاکت بتائیں،اگر کسی امر پر اتفاق ہو جائے تو بہتر ورنہ اس سے طلاق لے لی جائے یا عدالت کے ذریعے خلع حاصل کیا جا سکتا ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1 

تبصرے