سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(451) کیا جمعہ میں دو اذانیں سنت ہیں؟

  • 2736
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 5914

سوال

(451) کیا جمعہ میں دو اذانیں سنت ہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا جمعہ میں دو اذانیں سنت ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عرصہ سے میرے دل میں یہ بات کھٹک رہی تھی کہ جمعہ کے روز دو اذان سنت ہیں یا ایک اذان بوقت خطبہ امام سنت ہے؟
آج بطور مذاکرہ علمیہ اس کے بارہ میں عرض کرنا چاہتا ہوں، اور علمائے اہل حدیث و احناف سے عرض کروں گا، کہ اس مسئلہ میں اپنی اپنی تحقیق انیق سے بذریعہ جریدہ الاعتصام علماء و عوام الناس کو مطلع فرمائیں… میرے نزدیک بروز جمعہ دو آذان سنت ہیں۔ ایک وقتی اذان اور ایک زائد اذان جو بوقت خطبہ امام کہی جاتی ہے۔ کیوں مسجد نبوی ونیز جس جس مسجد میں نماز جمعہ و دیگر فرائض نماز با جماعت اب تک بلا اذان ہوا کرتی تھی، وہاں پر تقریباً ۱۱ھ کے وسط سے ہر فرض نماز کے لیے اذان وقتی بھی ہوتی تھی، اور جمعہ بھی پنج وقتہ نمازوں میں ایک فرض نماز ہے اور ہر ساتویں روز وہ ظہر کی جگہ ادا کی جاتی ہے۔ چنانچہ جمعہ کا بعد نزول فرمایا ہے۔ ویسے ہی نماز جمعہ کے لیے بھی اذان وقتی ہے۔
رہا یہ سوال کہ احادیث میں صرف اذان منبری یوم الجمعہ کا ذکر ہے۔ اذان وقتی کا ذکر نہیں، جس سے معلوم ہوا کہ اذان بروز جمعہ سنت ایک ہی اذان ہے، دو آذان سنت نہیں ہے۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ جب ایک چیز ثابت تھی تو اس کا ذکر نہیں کیا گیا، دوسرے عدم ذکر عدم شی کو مستلزم نہیں ہے۔ آذان منبری چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دروازہ پر کہی جاتی تھی، اس کا ذکر احادیث میں خصوصی طور پر کیا گیا ہے۔ اور جو وقتی اذان ہوتی ہے، اس کا ذکر چھوڑ دیا گیا، دوسرے اذان وقتی سے قصداً مراد اعلام برائے نماز ہے۔ تاکہ ہر مسلمان اذان سن کر نماز کی تیاری کرے اور جماعت میں شریک ہو، یہ صورت اذان منبری بھی اس کو حاصل نہیں ہو سکتی، وہاں تو جو شخص اذان منبری سن کر مسجد میں حاضر ہو گا، ثواب جمعہ سے بھی وہ محروم ہو جائے گا، اور جو ثواب اس کو نوافل پڑھنے سے قبل نماز جمعہ حاصل ہوتا ہے، اس سے بھی اس کو محرومی ہوئی، اب وہ صرف دو رکعات تحیۃ المسجد پڑھ سکتا ہے، نوافل نہیں پڑھ سکتا ، اور نوافل قبل جمعہ میں، بعد میںہونے وقت جمعہ کے نہیں، جن کا تعلق بھی اذان وقتی پر موقوف ہے، پس وقتی اذان جیسے نماز ظہر کے لیے ضروری ہے، ویسے ہی وقتی اذان نماز جمعہ کے لیے بھی ضروری ہے رہی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان مقام زواراء پر خارج مسجد کے تو وہ اولاً تو اذان معہود نہ تھنی اور اگر بالفرض وہ اذان معہود ہی ہو تو وہ محض مزید اعلان کے لیے تھی تاکہ جو لوگ بروز بہت مشغول ہوتے ہیں۔ او رمسجد سے دور رہتے ہیں۔ ان کو بھی جمعہ کے دن اور نماز کی خبر ہو جائے اور وہ غافل نہ رہیں، اس لیے اس اذان کا اہتمام صرف جمعہ کو کیا جاتا تھامگر باوجود اس کے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس اذان عثمانی کو بدعت کہہ دیا۔ نیز امام مسلم و بیہقی میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
کان بلال یوذن اذا رخصت الشمس فلا یقیم حتی یضرج النبی صلی اللہ علیہ وسلم الحدیث  (مسلم صفحہ ۲۲۱ ج۱ وبیہقی صفحہ ۱۹ ج۲)
یہ حدیث بھی عام ہے۔نماز ظہر و جمعہ دونوں کو شامل ہے۔ چنانچہ حاشیہ شرح وقایہ میں لکھا ہے۔
الاصح ان المعتبر فی وجوب السعی وکراھیة البیع ھوا الاذان الاوّل اذا کان بعد الزوال لحصول الاعلام بہ لانہ لو انتظر الی الاذان عند المنبر یقوتہ ادا السنة وسماع الحطبة
اس سے بھی معلوم ہوا، یہ اذان اولیٰ بعد اذان وقتی تھی نہ اذان منبری، پس آیت کریمہ جمعہ میں اختلاف ہے، آیا یہ اذان وقتی ہے، یا اذان منبری! وقتی اذان کی نفی کسی روایت صحیحہ سے ثابت نہیں اور وقتی اذان جیسے نماز ظہر کے لیے ہوتی ہے، ویسے ہی وقتی اذان بروز جمعہ ہونی چاہیے، لہٰذا بروز جمعہ دو اذانیں سنت ہیں۔(حضرت مولانا عبد الجبار صاحب کھنڈیلوی، الاعتصام جلد نمبر ۷ ش نمبر ۵۰)
جمعہ کی پہلی اذان کا کیا حکم ہے؟
جمعہ کے روز ایک اذان کا خطبہ کے وقت ہونا مسنون ہے، دو اذانوں کی ضرورت نہیں ہے، ہاں اگر کسی جگہ ضرورت اعلان ہو، جب کہ بستی کے اطراف میں مسلمانوں کے کھیت وغیرہ ہوں، تو وہاں پر دوسری اذان بطور اعلان، خارج مسجد کسی اونچی جگہ پر دے سکتے ہیں، یہ سنت عثمانی ہے، مگر زمانہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلاف صدیقی و فاروقی میں صرف ایک اذان منبری ہی دروازہ پر مسجد پر ہوتی تھی، دوسری اذان نہیں ہوتی تھی، اور دوسری اذان کی ابتداء زمانہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ہوئی، اور زمانہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں بھی یہ دوسری اذان جو کہ پہلی اذان کہلاتی ہے، خارج مسجد زواء کے مقام پر ہوتی تھی، مسجد میں نہیں ہوتی تھی، دیکھو مشکوٰۃ صفحہ ۱۲۳ باب الخطبہ والصلوٰۃ، مسجد میں اذان کو بنی امیہ کے زمانہ میں کر دیا گیا، لہٰذا اذان عثمانی جس کو پہلی اذان کہاجاتا ہے، اس کو مسجد میں کہلوانا بدعت ہے۔  (الاعتصام جلد نمبر ۲ ش نمبر ۸)
جمعہ کی دوسری اذان کیسے کہنی چاہیے؟
یہ اذان وقت خطبہ دروازہ مسجد یا امام کے سامنے کسی بلند جگہ پر کہلوانی چاہیے، جیسے اور اذانیں بلند آواز سے کہی جاتی ہیں، ویسے یہ اذان بھی کہلانا چاہیے، منبر کے نزدیک اس اذان کو کہلانا خلاف سنت ہے۔ بلکہ بدعت ہے، بنی امیہ کی سنت ہے۔ مقصد اذان کا نماز کی حاضری ہے۔ جو لوگ کسی کاروبار میں مشغول ہیں، وہ اپنے کاروبار کو چھوڑ کر مسجد میں حاضر ہو جائیں، ورنہ جمعہ کے روز اذان سے قبل ہی آنا مناسب ہے۔ ثواب جمعہ کا اسی شخص کو ملے گا، جو اذان سے جب کہ امام خطبہ کے لیے کھڑا نہیں ہوا ہے۔ حاضر مسجد ہو، دیکھو مشکوٰۃ صفحہ۱۲۲،باب التنظیف والتکبر۔  (الاعتصام جلد نمبر ۳ ش نمبر ۸)

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1 ص 177-179
محدث فتویٰ

تبصرے